نفاذِ شریعت کے رہنما اُصول

اس سے قبل علما کے ۲۲ نکات اور دستور پاکستان ۱۹۷۳ء کا ایک تقابل پیش کیاجا چکاہے۔ اس تقابلی جائزہ سے ظاہر ہے کہ اَب 'ملی مجلس شرعی' کی قرار داد میں اِن اُمور کا مطالبہ ہونا چاہئے:

1. حکومت کا سیاسی عزم"Political Will"اور مقتدرہ اشخاص کااسلامی ذہن "Mindset" اسلامی اقدار کے فروغ کے لئے ضروری ہے۔

2. علاقائی اور نسلی، قبائلی اور صوبائی تعصبات کی حوصلہ شکنی اور قومی یکجہتی اور قومی سوچ کے فروغ کے لیے مناسب پالیسیاں اور ادارے قائم کئے جائیں۔

3. قومی تعلیمی پالیسی اسلامی اور قومی سوچ کے فروغ کے لیے تشکیل دی جائے۔ جس سے طبقاتی نظام کا خاتمہ ہو اور تعلیم کی اساس: مذہب، زبان اور علاقائی ثقافت پرہو، تاکہ نظریۂ پاکستان کو تقویت ملے۔

4. حکومت قرآن و سنت کے بتائے ہوئے معروفات کو قائم کرنے، منکرات کو مٹانے اور شعائر ِ اسلام کے احیا و اعلاء کے لیے ادارے قائم کرے تاکہ تعلیم کے ذریعہ ان اُمور کی ترویج ممکن ہوسکے یعنی آرٹیکل ۳۱ میں جن اُمور کا ذکر ہے، اُن پر عمل ہوسکے۔

5. زکوٰۃ وصولی اور تقسیم کے نظام کو بہتر کیا جائے او رایسے ادارے اور ایسی سکیمیں تشکیل دی جائیں جن سے غربت ختم ہو۔

6. مسلمانانِ عالم کے رشتۂ اخوت و اتحاد کو قوی تر کرنے کے لیے اوآئی سی(OIC) کو فعال بنانے میں پاکستان اپنا کردار اداکرے۔ او آئی سی (OIC) مسلمان ممالک کے مابین تنازعات کو پرامن طریقوں سے طے کرنے کے لیے ادارے بنائے اور دیگر تنازعات کے حل کے لیے مسلم ممالک میں دوستانہ تعلقات کے فروغ کے لیے مؤثر کردار ادا کرے۔

7. آرٹیکل ۳۸ دستورِ پاکستان میںدرج عوام کی معاشی اور معاشرتی فلاح و بہبود سے متعلقہ اُمور کے فروغ کے لیے حکومت فوری اقدامات کرے تاکہ افلاس اور غربت کے مارے عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔

8. دینی مدارس میں اسلامی تعلیم کے ساتھ جدید علوم کی تعلیم کے لیے مربوط کورس کی تشکیل اور اس کے عملی نفاذ کے لئے حکومت مالی و دیگر وسائل مہیا کرے۔ اس تعلیم میں نہ صرف تقابل اَدیان بلکہ تقابلی علم و فکر و مذاہب شامل ہو۔ اس سے مذاہب میں اُلفت و محبت اور ہم آہنگی بڑھے گی جبکہ علاقائی، قبائلی اور فرقہ وارانہ تعصبات کی حوصلہ شکنی ہوگی۔

9. وفاقی شرعی عدالت اور شریعت اپلیٹ بنچ شریعت پٹیشن اور شریعت اپیلیں، جن کی کئی سالوں سے شنوائی نہیں ہوئی اور زیرالتوا ہیں، ان کا فیصلہ جلد کرے۔ خاص طور پر ربوا سے متعلقہ پٹیشنز کافیصلہ جلد کیا جائے۔

10. دستور کی کوئی ایسی تعبیر معتبر نہ ہوگی جو کتاب و سنت کے خلاف ہو۔

11. حکومت نفاذِ شریعت کے لئے اب تک ہونے والے متفقہ فیصلوں کا احترام کرے گی اور شریعت کی تعبیر کے حوالہ سے۲۲ دستوری نکات کی طرز پر متفقہ طور پر طے ہونے والے فیصلے ہی قابل قبول ہوں گے۔

12. قرآن و سنت کو ملک کا غیر مشروط طور پر سپریم لا قرار دیا جائے گا اور اس کے متضاد قوانین کو منسوخ کیا جائے گا۔

13. وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کے شریعت اپلیٹ بنچ کے جج صاحبان کو دیگر اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان کی طرح باقاعدہ جج کی حیثیت دی جائے اور ان کے سٹیٹس اور شرائط ِملازمت کو دوسری اعلیٰ عدالتوں کے برابر لایا جائے۔

14. بعض قوانین کو وفاقی شرعی عدالت کے دائرئہ اختیار سے مستثنیٰ قرار دینے کے فیصلوں

پرنظرثانی کی جائے اور وفاقی شرعی عدالت کو ملک کے کسی بھی قانون پر نظرثانی کا حق دیا جائے۔ [تیارکردہ: مارچ ۲۰۱۰ء]