انسانی حقوق حق اور باطل کے درمیان!

کون سے حقوق اور کون سے انسان؟
حلق پھاڑ کر نعرے لگانا کتنا آسان ہے لیکن ان نعروں کے پس پردہ حقائق اور کار فرما خفیہ عزائم کا سراغ لگانا اور ان کا اِدراک کرنا بڑا مشکل ہے۔حقوقِ انسانی کا نعرہ بھی اسی طرح کا ایک دلکش، خوبصورت اور پر فریب نعرہ ہے جس کی چمک بڑی مسحور کن ہے اور جوبظاہرہر انسان کے عزت و احترام پر ابھارتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نعرہ کا علمبردار کسے ہونا چاہے؟ کسے حق ہے کہ وہ اس نعرے کوبلند کرے؟ اس کے لوازمات اور اجزائے ترکیبی کون متعین کرے ؟ اورکون ہے جو اس کے اصول اور قواعد وضوابط وضع کرے ؟
یہ تمام سوالات یکے بعد دیگرے اس وقت جنم لیتے ہیں جب مغربی حکومتوں اور مغرب زدہ این جی اوز کے وظیفہ خوار حقوقِ انسانی کے نام نہاد علمبردار بعض اسلامی ممالک کے خلاف بھرپور مہم چلاتے ہیں اور ان کے نظام اور قوانین کو ہدفِ تنقید ٹھہراتے ہیں۔ کسی کے مال پرہاتھ صاف کرنے والے کا ہاتھ کاٹنا ان کی نظر میں ظلم ہے، دانستہ ناحق خون بہانے والے کوقتل کی سزا دینا ان کی کوتاہ عقل میں وحشت و بربریت ہے۔ شراب پر پابندی عائد کرنا، بے حیائی کے کلچر کے فروغ کو روکنا اورمرتد کو سزا دینا ان کے خیال میں تہذیب و تمدن کے منافی ہے اور فسق و فجور اور دین کے انحراف کو روکنے کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا، یہ سب ان کے نزدیک افراد کی شخصی آزادی کے خلاف کھلا ظلم ہے۔
اگر دینی شعار کے خلاف زبانِ طعن درازکرنے والیمتجددین کا نوٹس لیا جائے تو یہ ان کے نزدیک آزادیٴ اظہار اور آزادیٴ فکر میں کھلی مداخلت ہے۔ البتہ اگر مذہبی اقلیات پر مصالح اقوام اور جمہور کی غالب اکثریت کے اجتماعی نظم کی خلاف ورزی کا الزام ہے تو مناسب طریق کار یہ ہے کہ یہ معاملہ بین الاقوامی فورم میں اٹھایا جائے اور الزام درست ثابت ہونے کی صورت میں ا س پر قراردادِ مذمت پاس کی جائے۔ پھر نوٹس جاری کیا جائے اور اس کے بعد قرار واقعی سز ادی جائے۔
کاش ! انسانی حقوق کے منادوں کی تمام تر توانائیاں مظلوم طبقہ کے حقوق کی بازیابی کے لئے انصاف کے مطالبہ پر محدود اور ان کے مصائب و شدائد کے اِزالہ پر مرکوز ہوتیں۔ اور عوام اور حکام کے درمیان انصاف اور مصالحت کی قدروں کو فروغ دینے پرصَرف ہوتیں تو یقینا ہم اس مہم میں ان کے دست وبازو بنتے اور ان کی مساعی جمیلہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے ان کی پشت پناہی کرتے ،لیکن صورتحال اس کے برعکس ہے۔ ہم برملا کہتے ہیں اور لوگ بھی اب اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہیں کہ جو لوگ آج حقوقِ انسانی کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں، وہ کل کی طرح آج بھی انسانیت کے سب سے بڑے ستم کار ہیں۔ جب سے قیادت، اسلام کے ہاتھ سے نکل کرکفر کے ہاتھ آئی ہے، اس وقت سے مجبورو مقہور انسانیت اس کے ظلم وجبر کے بوجھ تلے سسک سسک کر دم توڑ رہی ہے۔ نامعلوم کب تک یہ سسکتی انسانیت ابلیسیت کے ہاتھوں زخم خوار رہے گی !!
اپنی نظروں کوعالم انسانی کے نقشہ پر گھماکر دیکھئے تو یقینا آپ کو دو جہاں نظر آئیں گے۔ ایک تو وہ جہاں ہے جو بلندی، ترقی اور خوشحالی کی معراج پرجا گزین ہے اوردوسرا وہ جو جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئے نانِ جویں کے لقمہ لقمہ کو ترس رہا ہے اور شرف و عزت، آزادی اور خود مختاری کے ادنیٰ مظاہر سے بھی محروم ہے۔ایک وہ عالم کہ ہر چیز اس کے زیر تسلط ہے، ہر چیز پر اس کا کنٹرول ہے اور ایک وہ محکوم ہے کہ جو اپنی ہی زمین کے سینے سے نکلنے والے مالی وسائل اور معدنی ذخائر پر حق نہیں رکھتا۔ جو اپنے ہی علاقوں کا دفاع کرنے سے بے بس ہے۔ وہ کسی کو اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی سے نہیں روک سکتا۔ اس کا مستقبل تاریک اور اس کا حال غیر محفوظ ہے اور وہ عالم جو اس کے مقابلے میں پوری کرئہ ارضی کا عشرعشیر بھی نہیں ہے، آج یہ عشرعشیر اس اکثریت کا وڈیرہ اورنگہبان بنا بیٹھا ہے جوپوری دنیا کے تین چوتھائی وسائل کی مالک ہے اور ان کے وسائل کو مختلف حربوں سے لوٹ رہا ہے۔
آپ اسے لطیفہ کہئے یا عجوبہ سمجھئے،بہرحال یہ ایک مضحکہ خیز بات ضرور ہے کہ ایک ظالم،انسانیت دشمن اقلیت انسانی حقوق کا چارٹر مرتب کرے اور اپنی وظیفہ خوار تنظیموں اور کانفرنسوں کے ذریعے اس مظلوم اکثریت کو انسانی حقوق کی ادائیگی کی کا درس دے جو خود دو سو سال سے اپنے انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے پکار رہی ہے۔
کون سے انسان کے حقوق کی بات کرتے ہو؟
ان سے پوچھو، کس انسان کو حقوق دینے کا راگ الاپ رہے ہو؟ کیا براعظم افریقہ کے اس انسان کے حقوق کی بات کرتے ہو جس کے مختلف قبائل کے لاکھوں سیاہ فام باشندوں کو سفیدچمڑی والوں کی خدمت کے لئے بحری جہازوں میں لاد لاد کریورپی ممالک میں لے جایا گیا اور ان سے ڈھور ڈنگروں کی طرح کام لیا گیا ۔ یا اس اصلی النسل امریکی کے حقوق کی بات کرتے ہو جس نے یورپ کے گنجان آباد علاقوں سے آنے والے بکریوں کے چرواہوں کو اس طرح موت کے گھاٹ اُتارا کہ ان کا وجود اس خطہ ارضی سے ہمیشہ کے لئے مٹا دیا ،تاکہ وہ اس کائناتِ بشری کو انسانی حقوق کا پہلا اور آخری سبق سکھا دیں۔ یا وسطی ایشیا کے ان مظلوم انسانوں کے حقوق کی بات کرتے ہو جنہیں بحر منجمد شمالی میں جمع کیا گیا اور اشتراکیت اور مارکسزم کے ظالمانہ قوانین کو عملی جامہ پہنانے کیلئے لاکھوں جانوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا․
اے انسانی حقوق کے نام نہاد مبلغو! بتاؤ کون سے انسان کے حقوق کی بات کرتے ہو؟کیا مقبوضہ فلسطین وکشمیر کے اس نہتے انسان کی، جس پرآتش وآہن کی بارش کی جارہی ہے یا عراق کے اس بے بس باشندہ کی جسے آئے روز بمباری کرکے خاک و خون میں تڑپایا جارہا ہے اور اقتصادی شب خون سے وہاں کے عوام کی زندگی جہنم بنادی گئی ہے یا افغانستان کے اس مقہور و مجبور انسان کی جس پر اقتصادی پابندیاں لگاکر ان سے زندہ رہنے اور اپنی مرضی کی زندگی بسر کرنے کا حق چھین لیاگیا ہے۔یا بلقان اور چیچنیا کے اس درماندہ اور مقہور انسان کی جسے طیاروں اور ٹینکوں کی مدد سے خون کا غسل دیا جارہا ہے۔
نہیں نہیں، ہرگز نہیں!بلکہتمہارا طرزِ عمل امتیازی رنگ وروپ رکھتا ہے اور تم صرف اس انسان کے حقوق کے لئے شور مچارہے ہو جو یورپی ہے اور مغربی تہذیب کا ہدی خوان ہے۔
کون سے حقوق!
کاش حقوقِ انسانی کے داعیوں کو انسان کے حق میں یہ فکر دامن گیر ہوتی کہ اس دور کا تباہ حال انسان کس طرح خوشحال ہوسکتا ہے۔ وہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرنے میں خود مختار اور بااختیار کیونکر ہو سکتا ہے اوردورِ حاضر کے چیلنجوں کے مقابلہ میں کامیابی و فتح یابی سے ہمکنار کیسے ہوسکتا ہے اور وہ پسماندگی اور مفلسی جو اس پر مسلط کردی گئی ہے، اس کی پرپیچ کھائیوں سے نکلنے میں کامیابی کب اس کے حصے میں آئے گی۔ یقینا انسانی حقوق کی تنظیمیں یہ جانتی ہیں کہ اکثر ترقی پذیر ممالک جو ہر میدان میں پسماندگی کی اندوہناک صورتحال سے دوچار ہیں، اس کے بنیادی طور پر مندرجہ ذیل اسباب ہیں :
(1) معاشی اور اقتصادی شب ِخون
(2) ٹیکنالوجی کا حصار اور
(3) معاشرتی اور اجتماعی بگاڑ
پھرستم ظریفی یہ کہ استعماری طاقتیں ان قوموں کی معیشت کو ہمیشہ کے لئے برباد کرنے،انہیں سائنسی ٹیکنالوجی کے حصار میں جکڑنے اور ان کی معاشرت اور تہذیب وتمدن کو بگاڑنے کے لئے سیاسی اور قانونی ہتھکنڈوں کو بروئے کارلارہی ہیں اور طاقت کے نشے سے مخمور ہو کر انہیں ا س بات پر مجبور کررہی ہیں کہ وہ اپنے تمام اُمور ہماری مرضی کے مطابق انجام دیں ۔یہی وہ پس پردہ عزائم ہیں جن کے حصول کے لئے انسانی حقوق کے یہ داعی حقوقِ انسانی کا غلغلہ بلند کرتے ہیں۔
خاص طور پر مسلم ممالک سے تعلق رکھنے والے انسان کے جن حقوق کا راگ الاپا جارہا ہے، وہ یہ کہ انسان کو یہ حق ہے کہ وہ مذہب کا حلہ اُتار کر اپنے دین سے منحرف ہوجائے ،پھر فسق و فجور انسان کاحق ہے۔ وہ ملحد، وحد ةالوجودی ، سیکولر جو مرضی بن جائے، یہ اس کا حق ہے۔ اس طرح عورتوں کو یہ حق ہے کہ وہ تمام معاملات میں مردوں کے مساوی ہوں اور اگرمرد جنس مردانہ سے دستبردار ہونا چاہے تو یہ اس کا حق ہے ۔یہ ہیں وہ مقاصدجو مغرب کے پیش نظر ہیں کہ مسلمان کے عقائد، نظریات، تہذیب وثقافت، معاشرت اور خاندانی سسٹم کو بالکل برباد کر کے رکھ دیا جائے !!
پھر ان حقوق کے مطالبہ کے اوپر بعض خوشنما نعروں کا خول چڑھا دیا جاتا ہے اور اس کے لئے وہی طریقہ کار اختیار کیا جاتاہے جو ان مقاصد کو بروئے کار لانے میں اہم کردار ادا کرسکے۔ مثال کے طور پر یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ مقدمہ کی کارروائی صاف شفاف ہونی چاہئے، ہر شخص کو اپنے دفاع کا مکمل حق حاصل ہونا چاہئے۔قیدیوں سے ملاقات کی اجازت ہونی چاہئے۔ سزا دینے سے پرہیز کیا جائے اور قید خانوں کی صفائی کا مکمل خیال رکھا جائے۔
لیکن یہ تمام خوشنما مطالبات بھی اس وقت ریزہ ریزہ کرکے ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیئے جاتے ہیں اوران حقوق کے مطالبہ کو اس وقت پاگل پن اور بیہودہ گفتگو پر محمول کیا جاتا ہے، جب ان حقوق کا مطالبہ کرنے والے لا اله الا الله کے حامل اور اللہ کی شریعت کا مطالبہ کرنے والے مسلمان ہوں۔ اس کے برعکس اگر دنیا کے کسی کونے میں کسی کافر خصو صاً عیسائی کے حقوق پر زد پڑتی ہے تو پورا مغرب حقوق حقوق کا غلغلہ بلند کرتا ہے!!
تم ہی بتاؤ! ہم اس کی کیا توجیہ کریں کہ اگر مصر میں واقع امریکی یونیورسٹی کا ایک پروفیسر کسی جرم کی پاداش میں مصر کی عدالت کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو اس ایک شخص کی وجہ سے پوری مغربی دنیا برافروختہ اور مشتعل ہوجاتی ہے۔ لیکن جب یہی لوگ یہ سنتے ہیں کہ ہزاروں مسلمان دنیا کی مختلف جیلوں میں بند پڑے ہیں جن کی اکثریت بے گناہ اور بغیر کسی الزام، جرم اور مقدمہ کے ظلم کی چکی میں پس رہی ہے تو یہ مہذب دنیا ، بہری، گونگی اور اندھی بن کر خاموشی سے ان کی بے بسی کا تماشہ دیکھتی ہے۔ توکیا یہ دوغلی پالیسی حقوق کے ضمن میں کھلی منافقت نہیں ہے !!
حال ہی میں صرف ایک ماہ میں مصر کے دو آدمیوں پر انسانی حقوق کی پامالی کا الزام عائد کیا گیا۔ ایک شخص کے متعلق تو یہ کہا گیا کہ یہ بہت زیادہ شادیاں کرتا ہے اور سخت مزاج کا مالک انسان ہے۔ اس لئے کہ یہ چار عورتوں سے شادی کرتا ہے، ضرورت پڑنے پر انہیں طلاق دیتا اور مزید عورتوں سے نکاح کرلیتا ہے۔اس طرح اس نے کئی شادیاں کی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ شخص اسلامی موضوعات پر لکھتا اورشکل و صورت سے 'مذہبی' معلوم ہوتا ہے۔ بس پھر کیا تھا کہ ذرائع ابلاغ کے متعدد فورموں سے اس کی عزت وآبرو پر رکیک حملے شروع ہوگئے جس میں اس کے کردار ، شہرت اور شخصیت کو اس طرح نشانہ بنایا گیا، گویا یہ آدمی حقوقِ انسانی میں سے کسی حق کا بھی مستحق نہیں ہے۔دوہرے معیار کے حامل ان منافقوں نے ایک طرف شریعت ِاسلامیہ پر اپنے زہر آگیں قلم سے طعن و تشنیع کے تیر برسائے اور دوسری طرف صرف اس لئے ایک شخص کو اپنی زہر آلود زبانوں کا نشانہ بنایا کہ وہ اسلام کا علمبردار اور کامیاب سرگرمیوں کا حامل تھا۔کسی مسلمان کی کامیابی ان کے نزدیک ممنوع ہے اوران کو قطعاً گوارا نہیں کہ ایک مسلمان ترقی کی معراج پر پہنچے ،بلکہ ان کے نزدیک مسلمان کی قسمت میں ہمیشہ کے لئے پسماندگی اور نامراد ی لکھ دی گئی ہے۔ یہ ایک واقعہ نہیں بلکہ اس قسم کے سینکڑوں واقعات آئے روز منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔ لیکن کیا مجال کہ حقوقِ انسانی کا راگ الاپنے والوں اور ہر وقت اپنی زبانوں کو حقوقِ انسانی کے وِرد سے تر رکھنے والوں کے ضمیرپراحساس کی ہلکی سی خلش، ان کے شعور میں ذرا سی جنبش بھی پیدا ہوتی اور مذمت کا ایک لفظ بھی ان کی زبان سے جاری ہوتا،حالانکہ اس شخص نے کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا ۔ اس کا یہ کام نہ اللہ کے ہاں جرم ہے اورنہ ہی عرف ِعام میں اسے جرم کہا جا سکتا ہے!!
اب ایک اور واقعہ سنئے اور مغربی دنیا کی منافقت ملاحظہ فرمائیے! چند دن پہلے لندن کے ایک مقامی اخبار نے ایک عیسائی راہب کا ایک عورت کے ساتھ سیکنڈل منظر عام پر لانے کی جرأت کی۔ثبوت اور واقعہ کی توثیق کے لئے اس کی قابل اعتراض حالت کی تصاویر بھی شائع کر دیں ۔ اگرچہ اس اخبار کا یہ اقدام کہ اس نے راہب کو ذلیل و رسوا کرنے کی خاطر واقعہ کی تفصیلات کو تصاویر کے ذریعہ پھیلایا،اس راہب کے جرم سے کم بھیانک نہ تھا، لیکن حیرت ناک اور تعجب انگیز بات یہ تھی کہ پوری دنیا اس اخبار پر برس پڑی اور اس بنیاد پر اخبار کو ہدفِ تنقید ٹھہرایا کہ ایک ایسے آدمی کی توہین کی گئی ہے جو دین کا رہنماتھا۔ یہ اس کی نہیں بلکہ دین کی توہین ہوئی ہے اور اس دین کی توہین کرنا کسی طور بھی مناسب نہیں ہے!
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دین اسلامیہ اور باقی ادیان کے درمیان یہ تفریق کیوں؟ اگر ایک عیسائی راہب کی توہین دنیا کی نظروں میں مذہب ِعیسائیت کی توہین ہے تو دین اسلام کے حامل شخص کی توہین 'اسلام'کی توہین کیوں نہیں؟مزید یہ کہ مسلمان کا عمل اس کی شریعت کی حدود کے اندر رہتے ہوئے تھا اور عیسائی راہب کا عمل(مخفی معاشقہ یا زنا) مذہبی تعلیمات یا اخلاق سے گری ہوئی حرکت تھی۔ دونوں کے درمیان اس اہم فرق کے باوجود بھی ذرائع ابلاغ کا رویہ مسلمان اور عیسائی کے ساتھ جداگانہ ہے۔ یہی مغرب کی منتخب اخلاقیات ہے!
مذکورہ واقعہ سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ حقوق ، حقوق کا بگل بجانے والوں کا حقوقِ انسانی کے سلسلے میں طرزِ عمل امتیازی رنگ و روپ رکھتا ہے اور ان کے نزدیک حقوق اور انسان کی الگ الگ انواع و اقسام ہیں اورکسی قسم کا حق بھی ان کے نزدیک تلف اور پامال نہیں کیا جاسکتا لیکن ایک مسلمان کے حقوق کی پامالی ان کے نزدیک انسانی حقوق کی پامالی کے دائرے میں نہیں آتی۔
ان کا انسان اورہمارا انسان؟
حقوقِ انسانی کا درس دینے والے مغربی دراصل ہمیں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تمہارا انسان ہمارے انسان جیسا بن جائے۔ تم اپنے قوانین ہمارے قوانین کے مطابق ڈھال لو۔ تمہارے اخلاق و آداب اور طور اَطوار ہمارے جیسے ہوجائیں۔ تمہارا سماج اور معاشرہ ہر لحاظ سے ہمارے معاشرے کے مطابق ڈھل جائے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ایک مغربی انسان کی حالت کیا ہے؟ کیا مغربی معاشرہ اس لائق ہے کہ وہ ایک مشرقی اور عرب مسلمان کے لئے قابل تقلیدنمونہ بن سکے ۔ہم انہیں کی زبانی اوران کے اعدادوشمار کو سامنے رکھتے ہوئے ایک مغربی انسان کی زندگی کی ایک ہلکی سی جھلک آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ یہ معلوم ہو کہ وہ کس قدر تلخ زندگی اور اندوہناک صورتحال سے دوچار ہے۔ بداخلاقی اور بے حیائی کا سیلاب کس طرح انہیں بہا کر لے گیا اور وہ کیوں چاہتے ہیں کہ ہم بھی جہنم کے اس گڑھے میں گرجائیں جس سے نکلنے کی اب وہ راہیں ڈھونڈ رہے ہیں۔
ہم صرف خود سری اور احساسِ برتری میں مبتلا امریکی معاشرہ کی صورتِ حال پیش کرنے پر اکتفا کریں گے جوبرملا اپنی خود سری کا اظہار کرتا نظر آتا ہے۔ ہم نے جو امریکی معاشرے کو منتخب کیا ہے، اس کی وجہ کوئی عناد اور تعصب نہیں ہے۔ بلکہ اس کی وجہ چند مخصوص وجوہات ہیں ،جو درج ذیل ہیں:
1۔ ایک تو امریکی معاشرہ بزعم خود انسان کو انسان بنانے میں زیادہ سرگرم ہے۔
2۔ دوسرا یہ کہ امریکہ آج پوری دنیا پر حکمران بنا بیٹھا ہے اور وہ اپنی تہذیب، ثقافت اور تمدن کو پوری دنیا میں رائج کر دینا چاہتا ہے ۔
3۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ آج کا کوتاہ بین اور بے سمجھ طبقہ امریکی معاشرہ کی نقالی کرنے کے لئے بے چین اوربے قرار ہے۔
4۔ آخری وجہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ یہ سمجھتا ہے کہ دنیا میں حقوقِ انسان کے لئے کام کرنے والی تمام تنظیمیں امریکی ہیں یا امریکہ کی وظیفہ خوار اور رجسٹرڈ ہیں۔
چنانچہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس معاشرہ کے متعلق تفصیل سے گفتگو کریں تاکہ ہم یہ جائزہ لے سکیں کہ خود اس معاشرہ میں حقوق کی حقیقت کیا ہے؟ اور وہ جن حقوق کی بات کرتا ہے آیا انہیں انسانی حقوقکہنا چاہیے کہ جس سے انسانیت کو زندگی نصیب ہوتی ہے یا حیوانی حقوق کہنا چاہئے،جس سے حیوانیت اپنی دل لگی کا سامان کرتی ہے۔
جرائم کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے!
امریکی معاشرہ میں صرف اسی اور نوے کی دہائی میں قیدیوں کی تعداد پہلے سے تین گنا بڑھ گئی ہے۔ اس کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ صرف ۱۹۸۰ء تا ۱۹۹۳ء کے دوران جیلوں میں آنے والے قیدیوں کی تعداد نو لاکھ پچاس ہزار( ۹۵۰۰۰۰)تھی اوریہ تعداد بھی ان مجرموں کی تھی جن کی باقاعدہ تھانے میں رپورٹ درج ہوئی۔اگر ہم اس بات سے واقف ہوں کہ وہ جرائم جو منظر عام پر نہیں آئے ، ان کی تعداد منظر عام پر آنے والے جرائم کی نسبت عموماً کئی گنا ہوتی ہے تو آپ بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں کہ امریکی معاشرہ میں حقیقی مجرموں کی تعداد کس قدر زیادہ ہوگی۔
اور جرائم کی وہ تعداد جن کا سرکاری اعدادوشمار میں اعلان کیا گیا، اس میں آخری چند سالوں میں جرائم کی تعداد گذشتہ سالوں کی نسبت کئی گناہ زیادہ ہے۔امریکہ کی کل آبادی اس وقت ۲۶۳۲۵۰۰۰۰ ملین ہے اور وہاں اب جرائم کی شرح ۶۰ فیصد ہوگئی ہے۔ امریکی معاشرے کی مجموعی تعداد میں ۶۰ فیصد ایسے لوگ ہیں جو عادی مجرم ہیں اور بڑے بڑے جرائم کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ ۵۸ فیصد ایسے لوگ ہیں جنہوں نے کم از کم دو مرتبہ ان جرائم کا ارتکاب کیا ہے ۔ مذکورہ فیصدی شرح جرائم سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہاں جرائم پیشہ افراد کی کل تعداد کتنی ہوگی۔ ( جیمس بارٹرسون وبیٹرکیم کی کتاب یوم أن اعترفت أمریکا بالحقیقة، صفحہ :۳۵،عربی ترجمہ: محمد بن مسعود البشر)
یہ تو تھا ایک اجمالی خاکہ، اب مختلف جرائم کی الگ الگ تفصیل ملاحظہ ہو :
قتل و غارت:بعض لوگ اس وہم کا شکار ہیں کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں قاتل کے لئے پھانسی کی سزا کو ختم کرنے پر جو مسلسل اصرار کیا جارہا ہے، اس کا سبب جذبہ رحم دلی اور وہ انسانی جذبات اور احساسات ہیں جن کے مطابق پھانسی کی سزا ایک اذیت رساں،ظالمانہ اور غیر مہذب اقدام ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ۔اگر ہمیں معلوم ہوکہ صرف امریکہ میں قتل کے واقعات کی شرح کس قدر خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے تو ہمیں یہ بخوبی سمجھ آجائے گا کہ امریکی اور یورپی معاشرہ اور دیگر مغربیوں کا پھانسی کی سزا پر واویلا کرنے کا اصل محرک کیا ہے؟
دراصل اس واویلے کے پس پردہ کا رفرما حقیقی سبب یہ ہے کہ اگر پھانسی کی سزا کو امریکی باشندوں پر نافذ کیا جائے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ہر سال ہزاروں امریکیوں کا خون بہانا پڑے گا۔ اس لئے کہ امریکہ میں ہر سال ۲۵ ہزار افراد قتل ہوتے ہیں۔اس سزا کے نفاذ کی صورت میں ۲۵ ہزار افراد کو عدالت کے کٹہرے میں قتل کی پاداش میں قتل کیا جائے گا ۔ یہ تو اس صورت میں ہے جب ہم یہ فرض کرلیں کہ ہر قتل میں صرف ایک شخص ملوث ہے۔ لیکن ہر جگہ ایسا نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات ایک ہی قتل میں دو دو، تین تین، دس دس افراد تک شریک ہوتے ہیں۔ تو آپ اندازہ کریں کہ اس صورت امریکیوں کی کتنی بڑی تعداد کوموت کے گھاٹ اترنا پڑے گا۔ اگر ان کے ساتھ جاسوسی، ڈاکہ زنی اور کرپشن وغیرہ کی وارداتوں کی پاداش میں قتل کے مستحق ٹھہرنے والوں کو بھی شامل کرلیا جائے تو عقل ودانش سے بہرہ ور انسا ن بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ اہل مغرب اس سزا کو ختم کرنے کا مطالبہ آخر کیوں کررہے ہیں؟اور اس مطالبہ کے پس پردہ حقیقی محرک کیا ہے !!
امریکہ اور مغرب کے اہل دانش اور مفکرین جو اسلامی ممالک میں شرعی احکام کے نفاذ کی وجہ سے حقوقِ انسانی کی پامالی پر آہ و بکا کر رہے ہیں،اگر وہ انصاف سے کام لیتے ہوئے اپنے ہاں ہونے والی قتل کی وارداتوں اور قانونِ قصاص کو نافذ کرنے والے اسلامی ممالک میں ہونے والے قتل کے واقعات کا موازنہ کریں تو یقینا وہ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ مغربی ممالک میں ہونے والے قتل کے واقعات اسلامی ممالک کی نسبت کئی گنا زیادہ ہیں۔ آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ ایک بین الاقوامی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق مملکت ِسعودی عرب میں ۱۹۸۰ء تا ۱۹۹۶ء کے دوران جن لوگوں کو قتل اور دیگر جرائم میں موت کی سزا دی گئی، ان کی تعداد صرف ۲۹ ہے۔کہاں یہ معمولی سی تعداد اور کہاں وہ لاکھوں افراد جو قطع نظر دیگر جرائم کے، صرف قتل کے الزام میں امریکہ کی جیلوں اور کال کوٹھڑیوں میں بند پڑے ہیں۔ اے حقوق انسانی کے نام پر اسلامی سزاؤں کو وحشیانہ قرار دینے والو! بتاؤ، تم اس صورت حال پر کیا تبصرہ کروگے ؟
آج ہر تین میں سے ایک امریکی اس بات کی تائید کرنے پر مجبور ہے کہ قتل پر موت کی سزا کا نفاذ ضرور ہونا چاہئے اور قاتل کو صرف قید کی سزا دینا سراسر خلافِ انصاف ہے۔ اہل مغرب جو اسلام کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور اس کی سزاؤں کو وحشیانہ قرار دے رہے ہیں،ہم ان سے یہ مطالبہ نہیں کرتے کہ وہ اسلامی احکام کی پیروی کریں بلکہ ہم ان سے صرف یہ گزارش کرتے ہیں کہ خدارا اسلامی معاشرہ کو خون کی وادی میں دھکیلنے سے باز آجائیں جس طرح کہ خود ان کا اپنا معاشرہ خونی یلغار کی لپیٹ میں آچکا ہے جو صرف ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہی نہیں ہیں بلکہ وہاں ہرسال سینکڑوں لوگ خود اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیتے ہیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ امریکی نوجوانوں میں خود کشی کی شرح پورے یورپ سے بیس گنا اور جاپان سے ۴۰ گنازیادہ ہے۔(جیمس بارٹرسون اوربیٹرکیم کی کتاب یوم أن اعترفت أمریکا بالحقیقة، صفحہ :۳۵،عربی ترجمہ: محمد بن مسعود البشرصفحہ ۸۸)
جنسی بے راہ روی:جو انسان ناحق خون بہانے کو معمولی کام سمجھنے لگے تو پھر بھلا وہ محفوظ عزتوں کو پامال کرنے میں کیا باک محسوس کرے گا اوریہ حقیقت ہے کہ خون کا پیاسا انسان یقینا شہوت کا اندھا اورزناکاری و بدکاری کا رسیا ہوتا ہے۔ وہ کبھی بھی عزتوں کو تار تار کرنے سے اپنا دامن محفوظ نہیں رکھ سکتا۔ کسی قوم میں اگر قتل کے مجرموں کی سالانہ تعداد لاکھوں ہے تو یقینا حرام کاری کا ارتکاب کرنے والوں کی تعداد کئی ملین سے متجاوز ہوگی۔ اس بارے میں امریکہ کی سرکاری رپورٹ ملاحظہ ہو:
" امریکی معاشرہ میں زنا کے واقعات کی عمومی شرح ۳۱/ فیصد ہے اوریہ شرح ان لوگوں کے متعلق نہیں ہے جنہوں نے زناکاری کا ارتکاب ایک یا دو مرتبہ کیا ہے۔ بلکہ یہ رپورٹ ان لوگوں کے بارے میں ہے جو اس جرم میں بری طرح ملوث ہوچکے ہیں۔"
اس کے بعد رپورٹ میں یہ لکھا ہے :
"یہ رپورٹ باقی جنسی جرائم سے قطع نظر صرف زنا کاری کے متعلق ہے اورمجموعی جنسی جرائم میں سے ۲۸ فیصد جرائم زنا کاری سے متعلقہ ہیں اور یہ زنا کے وہ واقعات ہیں جو باقاعدہ عملی طور پر واقع ہوتے ہیں۔ ۶۲ فیصد امریکی وہ ہیں جواگرچہ خود تو اس جرم میں ملوث نہیں ہیں لیکن وہ شادی کے بندھن میں بندھے بغیر آپس میں جنسی تعلقات قائم کرنے میں کوئی جرم اورعار محسوس نہیں کرتے اور وہ سمجھتے ہیں کہ مردوزن شہوت رانی اورلذت پرستی کے لئے بالکل آزاد ہیں۔"
اعدادوشمار اس بات پر شاہد ہیں کہ امریکہ میں چار عورتوں میں سے ایک عورت اپنے خاوند سے خیانت کی مرتکب ہوتی ہے اور تین آدمیوں میں سے ایک آدمی اپنی بیوی سے خیانت کرتاہے اورایک دوسرے کی عزتوں کی پامالی اور جنسی تشدد صر ف بالغ اور نوجوان نسل تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ نابالغ بچے اور بچیوں کو بھی جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور جیسا کہ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ہر ساتواں امریکی بچہ اباحیت کی قربان گاہ پر چڑھ جاتا ہے1 اوراسے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ تو معصوم بچے اور بچیوں کی حالت ِزار ہے۔ رہی جوان عورتیں تو انہیں بھی جنسی جبرو زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کی جسمانی صحت اور روحانی قوت پر نہایت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ وہ عورتیں جو اس جنسی تشدد کا شکار ہوئیں، ان میں سے ۴۲ فیصد عورتوں نے یہ کہا کہ ان پر جنسی تشدد کرتے ہوئے انتہائی قسم کی بداخلاقی اور سنگدلی کا مظاہرہ کیا گیا ۔
باوثوق اعدادوشمار کے مطابق امریکہ میں ڈاکہ زنی اور لوٹ کھسوٹ کی وارداتیں، جاپان، برطانیہ اور سپین کی نسبت ۲۰ گنا زیادہ ہیں۔(حالات فوضیٰ، الآثار الاجتماعية للعولمة،عربی ترجمہ: عمران ابوحجیلہ، صفحہ:۱۱۹)
شہوانیت کے اس عروج اور جنسی بے راہ روی کا سبب اور حقیقی محرک معاشی حالات کا بگاڑ اور روحانی قدروں کی تباہی تھا۔ معاشی حالات نے اس قدر مجبور کردیا کہ ہر فرد مرد، عورت(کنواری یا بیوہ) سب کی سب کارزارِ حیات میں نکل کھڑی ہوئیں۔ پھر جب دونوں صنفوں میں ربط واختلاط کے مواقع بڑھے تو اس کا فطری نتیجہ یہ نکلا کہ شہوانیت کی آگ بھڑک اٹھی۔ اس آگ کے شعلوں کومزید تیز کرنے کے لئے تھیٹر، رقص گاہوں کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں برہنہ اور خوبصورت عورتوں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ جس نے پوری قوم کو شہوانیت کی آگ بھجانے کے لئے زنا کاری اور بدکاری کے جہنم میں دھکیل دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اخلاق اور روحانیت کی بنیادیں ڈھے گئیں، فحاشی اور زنا کاری کا بازار گرم ہوگیا اور معاشرہ راہِ راست سے ہٹ کر اخلاقی جذام میں مبتلاہوگیا اور ان کے لئے زنا کاری کاارتکاب کرنا ایسے ہی بن گیا جیسے قہوہ کا ایک کپ پی لیا یا سگریٹ سلگا لی۔
آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ ۵۳ فیصد امریکی عورتوں نے خود اقرار کیا کہ وہ اپنے خاوندوں سے خیانت کرنے میں کسی قسم کا تردّد محسوس نہیں کرتیں اور نہ ہی ان کے خاوند ان سے خیانت کرنے میں کوئی تردّد یا ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ شہوانیت اور جنسی بے راہ روی کے شکار ۲۰ فیصد مردوں نے یہ اعتراف کیا کہ ان کی حیوانیت کا شکار ہونے والی عورتوں نے بذاتِ خود ان سے بدکاری کا مطالبہ کیا تھا۔(حالات فوضیٰ، الآثار الاجتماعية للعولمة، عربی ترجمہ :عمران ابوحجیلہ، صفحہ ۱۱۹ /يوم أن اعترفت أمريکا بالحقيقة ،صفحہ ۸۸ تا ۹۹)
دراصل اخلاقی نظام کی یہ تباہی اور قانونی ومعاشرتی بندشوں سے آزادی مغربی قوموں کی قوتِ حیات کو گھن کی طرح کھا رہی ہے اورحالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ہر پانچویں لڑکی تیرہ سال کی عمر سے پہلے پہلے اپنی کنوارگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے اور تیرہ سال سے جوں جوں اوپر جائیں، یہ تعداد بڑھتی جاتی ہے۔2
جنسی آزادی اور جنس پرستی کا فروغ: مغربی اقوام میں زنا کاری کو بہت معمولی مسئلہخیال کیا جاتاہے، ان کے نزدیک جنس پرستی کا اطلاق صرف اس شخص پر ہوتا ہے جو زنا کے سوا دیگر قبیح فواحش کا شکار ہوگیاہو۔نہ صرف یہ بلکہ باہمی مرضی سے زنا کرنے والوں کو جرم ہینہیں سمجھا جاتا۔ جہاں فریقین کی رضامندی سے یہ قبیح فعل انجام پائے، مغربی اقوام کے ہاں وہ جرم کی تعریف سے خارج ہے۔
مغربی اقوام میں جنس پرستی ایک طویل تاریخ کی حامل ہے۔ لیکن امریکی اقوام کے ہاں خصوصاً کلنٹن کے دورِ حکومت میں جنس پرستی نے جس قدر فروغ حاصل کیا ہے، مغرب کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔جب بل کلنٹن صدارت کے عہدہ پر فائز ہوئے تو اس کی حکومت کے ابتدائی دور ۱۹۹۳ء میں دس لاکھ سے زائد افراد نے مظاہرہ کرتے ہوئے ہم جنس پرستوں کے حقوق کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے حقوق کا تین نکاتی ایجنڈا تیار کیا اورمظاہرین کے نمائندوں نے یہ ایجنڈا وائٹ ہاؤس کے صدر دفتر میں پیش کیا جس میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ
1۔ جنس پرستوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کے اور دیگر امریکی باشندوں کے درمیان مساوات کے قیام کے لئے امریکی قوانین میں ترمیم کی جائے۔ اورامریکی قانون دان ان کے خلاف نسلی بنیاد پر جو امتیازی کاروائیاں کررہے ہیں، انہیں روکا جائے۔
2۔ جنس پرستوں کیلئے امریکی افواج میں شامل ہونے پر جو پابندیاں عائد کی گئی ہیں ان کا خاتمہ کیا جائے
3۔ صدرِ امریکہ اور کانگریس کو چاہئے کہ ایڈز جو جنس پرستوں کو موت کے گھاٹ اتار رہی ہے، کے مقابلہ کے لئے مختص فنڈ میں اضافہ کرے۔
بل کلنٹن قومِ لوط کی آل کے ان تقاضوں سے متاثر ہوئے اوران کے مطالبات کو پورا کرنے کے لئے ان کے دل میں نرم گوشہ پیدا ہوا ۔جس کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے ایک خط لکھا جو وائٹ ہاؤس کے سامنے مظاہرین کے اجتماع کے سامنے پڑھ کر سنایا گیا جس میں امریکی صدر نے کہا :
"میں امریکی معاشرہ کے تمام گروہوں اور ہم جنس خواتین و حضرات کے درمیان مساوات کے قیام کے لئے کی جانے والی جدوجہد کی بھرپور تائید کرتا ہوں۔ میرا یہ ایمان ہے کہ محنت اور تگ و دو سے کام کرنے والا ہر شخص امریکی معاشرہ کا حصہ ہے۔ ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اس خواب کوحقیقت میں تبدیل کرنے کے لئے بھرپور محنت کریں۔" (روزنامہ یوایس اے :۲۷/ اپریل ۱۹۹۳)
اس صورتحال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ اقوام جو اللہ کی شریعت سے بغاوت کی روش اختیار کر لیں اوراللہ تعالیٰ کا دستور بھی انہیں گناہوں سے باز نہ رکھ سکے، ایسی فاسق وفاجر قوموں کو اللہ تعالیٰ ایسی بیماریوں کے عذاب میں مبتلا کردیتا ہے جن کا نام ان کے آباؤ و اجداد نے بھی نہیں سنا ہوتا۔
ان مغربی معاشروں کے ساتھ بھی ایسے ہی ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ایڈز جیسی نہایت موذی مرض ان پر مسلط کردی جو تقریباً دو عشروں سے اللہ کے عذاب کا کوڑا بن کر ان پربرس رہی ہے اورانہیں موت کے گھاٹ اتار رہی ہے لیکن افسوس کہ یہ ہولناک عذاب بھی انہیں اس اخلاقی گراوٹ اور راہِ انحراف سے نہ ہٹا سکا۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ تباہی کے اس عمیق غار میں گرنے کے لئے سب سے پیش پیش ہے جہاں ایڈز کے مریضوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ چنانچہ شہوانیت کی اس آگ کو غیر فطری اور غیر طبعی طریقوں سے بجھانے کا انجام یہ ہوا ہے کہ ۱۹۸۱ء سے ۱۹۹۱ء کے صرف ایک عشرہ میں پوری دنیا میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد ۱۳/ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے ، جن میں ۳۰ ہزار تعداد صرف امریکیوں کی ہے اور خدشہ ہے کہ ۲۰۰۰ء تک اس موذی مرض کا شکار ہونے والوں کی تعداد چار کروڑ سے بھی تجاوز کرجائے گی۔
منشیات اور ڈکیتیوں کا راج: امریکیوں کی اکثریت چوری اور ڈکیتی میں بہت مہارت رکھتی ہے۔ امریکی ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق ۷۵ فیصد امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ اگرانہیں پراعتماد اور محفوظ ذریعہ معاش میسر آجائے تو وہ ڈکیتی اور چوری کا خیال بھی دل میں نہیں لائیں گے۔ جہاں تک منشیات کا تعلق ہے تو یہ بات مسلمہ ہے کہ امریکی معاشرہ دوسری اقوامِ عالم کی نسبت شراب اور نشہ کا سب سے زیادہ رسیا ہے اور اعدادوشمار یہ بتاتے ہیں کہ ۳۵ فیصد امریکی 'میری جوائنا 'اور ۱۵ فیصد کوکین (ایک نشہ آور چیز جسے استعمال کرنے کے بعد انسان وقتی طور پر تسکین محسوس کرتا ہے) اور ۲۴ فیصد دیگر نشہ آور اشیا کے عادی ہوچکے ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق امریکہ میں وقوع پذیر ہونیوالے ۷۵ فیصد جرائم کا بنیادی سبب منشیات ہیں۔(حالات فوضیٰ، صفحہ ۱۳۸/يوم أن اعترفت أمريکا،صفحہ: ۱۵۱)
جن اعدادوشمار کا تذکرہ ہم گذشتہ صفحات میں کرچکے ہیں، انہیں کلی طور پر درست اور مبنی برحقیقت تسلیم نہیں کیاجاسکتا کیونکہ امرواقعہ یہ ہے کہ جرائم کی دنیا میں بے شمار حقائق کو منظر عام پر نہیں لایا جاتا۔ چنانچہ جیمس باٹرسون اور بیٹرکیم اپنی کتاب یوم أن اعترفت أمریکا بالحقیقة میں اس حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
"امریکہ میں وقوع پذیر ہونے والے جرائم کے متعلق سرکاری اعدادوشمار ایک طرح کا شک پیدا کرتے ہیں۔کیونکہ ہماری تحقیقی رپورٹ کے مطابق جرائم کی تعداد سرکاری رپورٹ کی تعداد سے ۶۰ فیصد زیادہ ہے"۔ (يوم أن اعترفت أمريکا بالحقيقة،ص:۱۴۱)
ان سے پہلے دو اورمصنّفین فرانک براؤن اور جان گراس نے الجریمة علی الطریقة الأمریکیة کے عنوان سے اپنی تحقیقی رپورٹ پیش کی جو ۵۱۲ صفحات پر مشتمل تھی،جس میں انہوں نے جرائم کی مختلف شکلوں اوران جرائم کے ارتکاب کے لئے انفرادی، اجتماعی، سیاسی اور تنظیمی سطح پر استعمال کئے جانے والے مختلف طریقوں کوبڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ بعض جرائم کا سبب کثرتِ مال کی حرص اور سرمایہ دارانہ نظام ہے تو بعض کا حد سے بڑھی ہوئی شہوانی پیاس ہے۔بعض جرائم مفلسی اور فقروفاقہ کا شاخسانہ ہوتے ہیں اوربعض جرائم خوشحالی اور مالی فراوانی کا نتیجہ ہیں۔بے شمار جرائم کا سبب مذہبی، نسلی امتیازات اورفرقہ واریت ہوتا ہے۔ وہ جرائم جن میں نوجوان نسل ملوث ہوتی ہے یا جن میں عورتیں اور بچے ملوث ہوتے ہیں، کتاب میں ان تمام جرائم کو بھی بڑی تفصیل سے بیان کیا گیاہے۔3 کتاب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
"ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں وقوع پذیر ہونے والے غیر معمولی حادثات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے قلق اور اضطراب نے امریکیوں کی جسمانی اور ذہنی قوتوں پر نہایت مہلک اثرات مرتب کئے ہیں۔ چنانچہ امریکیوں نے ذ ہنی اور جسمانی تسکین کے حصول کے لئے نشہ آور اشیا کا سہارا لیا جس کی وجہ سے منشیات فروشی کی صنعت اپنے عروج پر پہنچی گئی۔ اخباروں کے صفحات جرائم، قتل وغارت، زنا کاری اور بدکاری کی وارداتوں سے بھرگئے اور بڑے بڑے عہدے داروں کی کرپشن کے واقعات اخبارات کی شہ سرخیوں میں شائع ہونے لگے ۔ اور ہمارے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ امریکہ میں جن جرائم کا ارتکاب کیا جارہا ہے، ان کا مکمل انسائیکلو پیڈیا تیار کرتے۔ کیونکہ اس کے لئے بے شمار جلدیں درکار ہیں جن کو تصنیف کرنا ہمارے بس کا روگ نہیں۔"
چنانچہ یہ دونوں مصنف ۲۷/ ابواب پر مشتمل جرائم کی اس مطالعاتی رپورٹ کا تجزیہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں جرم ایک ایسے مضبوط اقتدار کا روپ دھار چکا ہے جو تمام قوانین کو اپنے ہاتھ میں لے کر مقننہ، انتظامیہ، عدالت اور صحافت ان چاروں ریاستی ستونوں کا مقابلہ کرنے کے لئے خم ٹھونک کرمیدان میں آگیا ہے ۔ اس کے بعد وہ لکھتے ہیں:
"نہایت ضروری ہے کہ امریکہ کی چند عمومی اور خصوصی مگر مضبوط ترین ایجنسیوں کی تفتیش کی جائے۔ اس قسم کی تحقیق ان جرائم کو طشت ازبام کرنے کا نقطہ آغاز ثابت ہوگی جن جرائم نے امریکی اداروں کو جرائم کی نرسریاں بنا دیاہے۔ اس تحقیق سے ہم ایک ایسے راج کو دریافت کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جس کو ہم ببانگ ِدہل جرائم کے راج سے تعبیر کر سکتے ہیں۔" (الجريمة علی الطريقة الأمريکية از فرانک براؤن اور جان گراس،عربی ترجمہ : فواد جدید،ص :۵)
اخلاقی اور تہذیبی کوڑھ میں مبتلا مغرب کے سرخیل امریکہ میں جرائم کا جو ننگا ناچ ناچا جا رہا ہے، اس کی ذکر کردہ تفصیل کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ روس جو الحاد ولادینیت کا سرخیل ہے، وہ ا ن جرائم سے بالکل پاک ہے ۔روس بھی امریکہ کی طرح جرائم کی کالونی بن چکا ہے بلکہ وہ امریکہ سے بھی دو قدم آگے ہے۔ اور وہاں جرائم کی شدت کا اندازہ اس بات سے بخوبی کیا جاسکتا ہے کہ روس کے بارے میں اعدادوشمار کے مطابق وہاں صرف قتل کے جرائم کی شرح امریکہ سے ۵۰ فیصد زیادہ ہے۔ اور رہا دیگر جرائم کا حال تو اعدادوشمار ہمیں بتاتے ہیں کہ وہاں کے تین ہزار باقاعدہ منظم جرائم پیشہ گروہ، جرائم میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ (حالاتِ فوضیٰ ،صفحہ :۱۱۴)
اِلحاد پرستی کے شکار مشرق اور اَخلاقی جذام میں مبتلا مغرب کے اس فساد کے درمیان ایک قوم صدیوں سے ہلاکت و تباہی کے عمیق غار میں سسکیاں لے رہی ہے اور تباہی وہلاکت کے بادل چھٹنے کی بجائے مزید گہرے ہوتے جارہے ہیں اور اس کا بنیادی سبب نت نئی ایجادات ہیں۔
جرائم کی دنیا
یہ جرائم آہستہ آہستہ بین الاقوامی رنگ اختیار کررہے ہیں اور سمگلنگ کے قوانین میں تخفیف،وسائل نقل و حمل اور ذرائع ابلاغ میں ترقی سے سب سے زیادہ فائدہ جرائم پیشہ مافیا اُٹھا رہا ہے۔ جس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ منشیات کی تجارت اور انسانی جان کے لئے مہلک اشیا کا کاروبار پوری دنیا میں عام ہوچکا ہے اوریہی دو ذرائع تجارت جرائم کی سرگرمیوں کو و سیع پیمانے پر فروغ دینے کے لئے اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ ۱۹۹۰ء تا ۲۰۰۰ء کے عشرے میں صرف امریکہ اور یورپ میں منشیات کی تجارت سے حاصل ہونے والی آمدنی ۱۰۰ /ارب ڈالرسالانہ تھی۔ ۱۹۹۴ء میں اقوامِ متحدہ کی زیرسرپرستی امن و امان کی بحالی کے لئے دنیا کے کثیر ممالک کے وزرا کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی۔تمام شرکاءِ کانفرنس نے اس بات کی توثیق کی کہ گلوبلائزیشن کے متعلقہ بعض قراردادوں کے اعلان کے بعد ۹۰ کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں بین الاقوامی جرائم کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ گلوبلائزیشن کی قراردادوں نے جرائم کو عام کرنے اور اسے پوری دنیا میں پھیلا دینے کے لئے جو مواقع فراہم کئے ہیں، ان کابلاخیز سیلاب جرائم کے آگے باندھے گئے تمام بند توڑ کرپوری دنیا میں پھیل گیا ہے۔ اس طرح الیکٹرانک میڈیا،پرنٹ میڈیا اور ذرائع ابلاغ کے انقلاب نے بھی جرائم کی دنیا میں ایک طوفان برپا کردیا ہے۔ خدا جانے اس طوفان کا دائرہ کار کس قدر مزید وسیع ہوگا اور کب یہ طوفان تھمے گا !!
لمحہ فکریہ
یہ تھا مغربی اقوام کی خوفناک صورتحال کا مختصر خاکہ جو میں نے آپ کے سامنے پیش کردیا کہ پورا مغرب جرائم کی آماجگاہ بن چکا ہے۔امراضِ خبیثہ کی کثرت ان کی موت کا سامان کررہی ہے۔ اعصابی اور نفسیاتی تشنج نے انہیں ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا دیا ہے۔ یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ ان اقوام نے اللہ کی اطاعت کا حلقہ اپنی گردن سے اتار پھینکا اور اللہ کے قانون سے بغاوت کی روش اختیار کی۔ اللہ کے قانون کے مقابلے میں اپنا خود ساختہ نظام او رقانون وضع کیا۔ لیکن ستم یہ کہ آج کے مغربی دانشور اور مغرب زدہ طبقہ شریعت ِالٰہیہ اور اللہ کے قانون کو انسان کے اس خود ساختہ قانون، جس نے انسانی زندگی کو جہنم زار بنا دیا ہے،کے سامنے پیش کرنے پراصرار کررہاہے اور اس میں تبدیلی اور اصلاح کا آوازہ بلند کر رہا ہے تاکہ وہ اس کو بھی تراش تراش کر انسانی قوانین کے سانچے میں ڈھال دیں ۔عظیم و رحیم ذات جل جلالہ کا فرمان کتنا سچا ہے :
﴿يُر‌يدُ اللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُم وَيَهدِيَكُم سُنَنَ الَّذينَ مِن قَبلِكُم وَيَتوبَ عَلَيكُم ۗ وَاللَّهُ عَليمٌ حَكيمٌ ٢٦وَاللَّهُ يُر‌يدُ أَن يَتوبَ عَلَيكُم وَيُر‌يدُ الَّذينَ يَتَّبِعونَ الشَّهَو‌ٰتِ أَن تَميلوا مَيلًا عَظيمًا ٢٧ يُر‌يدُ اللَّهُ أَن يُخَفِّفَ عَنكُم ۚ وَخُلِقَ الإِنسـٰنُ ضَعيفًا ٢٨ ﴾... سورة النساء
"اللہ چاہتا ہے کہ تم پر ان (کامیاب) لوگوں کی راہ کھول دے جو تم سے پہلے گزرچکے ہیں اور انہی کے طریقہ پر تمہیں چلائے اورتم پر اپنی نظر رحمت کرے۔ اللہ (تمہاری مصلحتوں) کاجاننے والا اور اپنے (تمام احکام میں) حکمت رکھنے والا ہے۔ اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم پر مہربانی کرے (اور تم ان برائیوں سے تائب ہوجاؤ جن میں وہ مبتلا تھے) لیکن جو لوگ احکامِ حق کی جگہ نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ تم راہِ اعتدال سے ہٹ کر بہت دور جا پڑو۔اللہ تعالیٰ تمہارے لئے نرمی اور آسانی چاہتا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ انسان طبیعت کا کمزور پیدا کیا گیا ہے۔"


نوٹ
1.  سید قطبؒ اپنی کتاب ''میرا چشم دید امریکہ ''میں اپنا ذاتی مشاہدہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''واشنگٹن کے 'ولسن ادارئہ معلّمین ' میں غیر ملکیوں کو انگلش سکھانے والے شعبہ کی ایک خاتون استاد نے لاطینی امریکہ کے طلباء کو امریکی روایات کے بارے میں ایک لیکچر دیا۔جس کے اختتام پر 'گوئٹے مالا' کے ایک طالب علم نے کہا: ''میں نے دیکھا ہے کہ چودہ سال کی لڑکیاں اور پندرہ سال کے لڑکے مکمل جنسی تعلقات قائم کرتے ہیں یہ خبر بڑی قبل ازوقت ہے۔اس پر خاتون استاد نے انتہائی پرجوش لہجے میں جواب دیا: ''ہماری زندگیاں انتہائی مختصر ہیں اورہم چودہ سال سے زیادہ وقت ضائع نہیں کرسکتے۔''
2.  جج لنڈ لکھتا ہے:
''ہائی سکول کی کم عمر والی ۴۹۵ لڑکیاں جنہوں نے خود مجھ سے اقرار کیا کہ ان کو لڑکوں سے صنفی تعلقات کا تجربہ ہوچکا ہے ان میں سے ۱۲۵؍ایسی تھیں جنہیں حمل ٹھہر گیا تھا۔ باقیوں میں سے بعض تو اتفاقاً بچ گئیں لیکن اکثر کو منع حمل کی مؤثر تدابیر کا کافی علم تھا۔ یہ واقفیت ان میں اتنی عام ہوچکی ہے کہ لوگوں کو ان کا صحیح اندازہ نہیں ہے''۔ (پردہ از مودودیؒ : ص ۱۰۹،۱۱۰)
3.  ایک امریکن رسالے میں ان اسباب کو جن کی وجہ سے وہاں بداخلاقی کی غیر معمولی اشاعت ہورہی ہے، اس طرح بیان کیا گیا ہے :
''تین شیطانی قوتیں ہیں جن کی تثلیث آج ہماری دنیا پر چھا گئی ہے اوریہ تینوں ایک جہنم تیار کرنے میں مشغول ہیں: فحش لٹریچرجو جنگ کے بعد سے حیرت انگیز رفتار کے ساتھ اپنی بے شرمی اور کثرتِ اشاعت میںبڑھتا چلا جارہا ہے۔ متحرک تصاویریں جو شہوانی محبت کے جذبات کو نہ صرف بھڑکاتی ہیں بلکہ عملی سبق دیتی ہیں۔ عورتوں کا گرا ہوا اخلاقی معیار، جو ان کے لباس اور بسااوقات ان کی برہنگی اور سگریٹ کے روز افزوں استعمال اور مردوں کے ساتھ ان کے ہر قید و امتیاز سے ناآشنا اختلاط کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہ تین چیزیں ہمارے ہاں بڑھتی چلی جارہی ہیں اوران کا نتیجہ مسیحی تہذیب اور معاشرت کا زوال اور آخر کار تباہی ہے۔ اگر ان کو نہ روکا گیا تو ہماری تاریخ بھی روم اور ان جیسی دوسری قوموں کے مماثل ہوگی جن کو یہی نفس پرستی، اور شہوانیت ان کی شراب اور عورتوں اور ناچ رنگ سمیت فنا کے گھاٹ اتار چکی ہے''۔ ('پردہ' از مودودیؒ، صفحہ ۱۰۲،۱۰۳)