انبیاءِ کرام  کا تشریعی مقام و مرتبہ... فکر ِرازی کا مطالعہ

دین اسلام اَبدی دین ہے چنانچہ دین اسلام کے پیش کردہ بنیادی اُصول بھی اَبدی ہیں جیسے توحید، رسالت، آخرت، بندگی ٴ ربّ، رضاءِ الٰہی وغیرہ۔ انبیاءِ کرام ہر دور میں انہی بنیادوں اور اُصولی باتوں کی دعوت پیش کرنے کے لئے تشریف لائے۔ کرہ ٴ ارض پر جب بھی اورجہاں بھی ان کی بعثت ہوئی، ان کی حیثیت اللہ تعالیٰ کے فرستادہ اور قابل احترام 'شارع1 'اور 'مطاع' کی تھی۔
رسول کا مقامِ مطاع
مولانا محمد منظور نعمانی لکھتے ہیں :
" اگر مقامِ نبوت سمجھنے اور نبی و رسول کی معرفت حاصل کرنے کے لئے صرف قرآن ہی میں تدبر کیاجائے تو معلوم ہوجائے گا کہ رسول کی حیثیت صرف ایک پیغام رساں ہی کی نہیں ہوتی بلکہ رسول امام ، ہادی ، قاضی، شارع، حاکم اورمطاع ہوتا ہے"1
قرآنِ مجید نے انبیاء و رسل علیہم السلام کے تشریعی مقام کی وضاحت بہت واضح اَلفاظ میں کردی ہے اور اللہ کے حکم سے ان میں سے ہر ایک کی اطاعت بھی لازمی تھی، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَما أَر‌سَلنا مِن رَ‌سولٍ إِلّا لِيُطاعَ بِإِذنِ اللَّهِ.......٦٤ ﴾..... سورة النساء
"ہم نے جو رسول بھی بھیجا ، اسی لئے بھیجاکہ اذنِ خداوندی کی بنیاد پر اس کی اطاعت کی جائے"
محمدبدر عالم میرٹھی لکھتے ہیں: "رسولوں کا مطاع ہونا قرآن کے نزدیک حق رسالت ہے اورایک ایسا عام قانون ہے جس سے کبھی کوئی رسول مستثنیٰ نہیں رہا۔ ہر رسول اطاعت ہی کے لئے بھیجا گیا ہے"2
سید مودودی فرماتے ہیں: "اللہ کا رسول قاضی، معلم و مربی، پیشوا، رہنما، حاکم و فرمانبردار اور شارع (Law Giver) ہوتا ہے۔"3
فخر الدین رازی قرآنی آیت ﴿وَما أَر‌سَلنا مِن رَ‌سولٍ إِلّا لِيُطاعَ بِإِذنِ اللَّهِ......٦٤﴾.....سورة النساء" کی تفسیر میں لکھتے ہیں: «وما أرسلنا من هذا الجنس أحدا إلا کذا وکذا»4
"گروہِ انبیاء میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں مگر ہرایک کو 'مطاع' بنا کربھیجا گیا ہے"۔
رازی  اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں :
«الآیة دالة علی أنه لا رسول إلا ومعه شریعة لیکون مطاعا في تلك الشریعة ومتبوعا فیھا ... واللہ تعالیٰ حكم علی کل رسول بأنه مطاع»5
"یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ ہر رسول ایک شریعت لے کر آتا ہے اور وہ اپنی اس شریعت کے سلسلے میں مطاع ہوتا ہے اور ضروری ہے کہ اطاعت کے ساتھ اس کی اتباع بھی کی جائے اور اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ بھی ہے کہ ہر رسول مطاع ہوتا ہے"
قرآنِ مجیدکی آیت: ﴿وَلَقَد ءاتَينا موسَى الكِتـٰبَ وَقَفَّينا مِن بَعدِهِ بِالرُّ‌سُلِ.......٨٧ ﴾...... سورة البقرة"موسیٰ علیہ السلام کو ہم نے کتاب دی اور ان کے پیچھے لگاتار رسول بھیجے"... معتزلہ نے اس سے یہ استدلال کیا ہے کہ ہرنبی صاحب ِشریعت نہیں ہوتا اور اس کی حیثیت و مقام شارع کا نہیں ہوتا جبکہ فخر الدین رازی اس کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ "اگر آدم علیہ السلام سے لے کر آخر تک ایک ہی شریعت ہے تو انبیاءِ کرام کی بعثت کی ضرورت کیا رہ جاتی ہے؟"... فخر الدین رازی کے نزدیک
"انبیاءِ کرام کی حیثیت کسی معاشرے کے لئے قاضی و شارع کی ہوتی ہے۔ معاشرتی زندگی جو انسانی وجود وبقا کے لئے ضروری ہے تو لازمی ہے کہ باہم ظلم و جور سے بچنے کے لئے کوئی شریعت ہو اور شارع بھی موجود ہو جواخلاقیات، سیاسیات اور نظامِ معاشرت میں ان کی رہنمائی کرے "6
فخر الدین رازی اتباع اور اِطاعت کو رسالت کا حق جانتے ہیں۔ مقام رسالت میں یہ بات شامل ہے کہ انبیاء و رسل کے طرزِ عمل کی اتباع کی جائے۔ حکم الٰہی ہے: ﴿قُل إِن كُنتُم تُحِبّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعونى......٣١ ﴾..... سورة آل عمران "ان سے کہہ دیجئے کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو" ... اتباع اور اطاعت حب ِالٰہی کی شرط ہے جبکہ حب ِالٰہی ایمان باللہ کی شرط ہے۔ رازی اس آیت ِمبارکہ کی توضیح و تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
«دلت الآية علی أن محبة الله مستلزمة للمتابعة لکن المحبة واجبة بالإجماع ولازم الواجب واجب فمتابعته واجبة»7
"یہ آیت اس بات پر واضح طور پر دلالت کر رہی ہے کہ اللہ کی محبت اتباع کو لازم ٹھہراتی ہے اور بالاجماع حب ِالٰہی واجب ہے۔ لہٰذا واجب کا جو لازمہ ہے وہ بھی واجب ہوتا ہے پس اس کی متابعت واجب ہے"
﴿وَما ءاتىٰكُمُ الرَّ‌سولُ فَخُذوهُ......٧ ﴾.....سورة الحشر" رازی اس حکم کی تفسیر میں لکھتے ہیں: «فإذا فعل فقد اٰتانا بالفعل، فوجب علينا أن نأخذہ »8قول وفعل دونوں صورتوں میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو فرمائیں یا نمونہٴ عمل پیش کریں، اس پر عمل پیرا ہونا اوراس فرمان اور اسوہٴ حسنہ کی پیروی کرنا واجب اورلازم ہے۔ آپ کی اصل حیثیت و مقام یہ ہے کہ آپ کی تعظیم کی جائے اور تعظیم کا اس کے سوا اور کوئی مطلب نہیں ہے کہ فکروعمل میں آپ کی پیروی کی جائے" ... نیز فرماتے ہیں :
«إنه لا نزاع في وجوب تعظيم الرسول فيکون ورود الشرع بإيجاب ذلك التعظيم يقتضي وروده بأن يجب علی الأمة الاتيان بمثل فعله»9
"رسول اللہ کی تعظیم کرنا بغیر کسی اختلاف کے فرض ہے اور شریعت کا آپ کی تعظیم کو فرض قرار دینا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اُمت پر آپ کے اعمال وافعال کی پیروی کرنا فرض ہے۔"
مقامِ رسالت ... قرآنی توضیحات
رسول کی اطاعت دراصل اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی عملی صورت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کرنے والا فی الواقع اللہ کے ساتھ بیعت کر تا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے اللہ ہی کے فیصلے ہوتے ہیں۔ اگر انسانی زندگی کے معاملات میں باہمی نزاع و اختلاف واقع ہوجائے تو اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ باہمی تنازعات کی ایسی صورتِ حال میں اہل ایمان کو من مانی کرنے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے فیصلوں سے روگردانی یا انحراف کرنے کا بالکل اختیار نہیں ہے۔ الٰہی فرمودات پر ایک نظر ڈالئے :
﴿مَن يُطِعِ الرَّ‌سولَ فَقَد أَطاعَ اللَّهَ........٨٠ ﴾..... سورة النساء
"جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے دراصل اللہ کی اطاعت کی"
﴿إِنَّ الَّذينَ يُبايِعونَكَ إِنَّما يُبايِعونَ اللَّهَ.......١٠ ﴾....... سورة الفتح
"اے نبی جو لوگ تم سے بیعت کر رہے تھے، وہ دراصل اللہ سے بیعت کر رہے تھے"
﴿وَما كانَ لِمُؤمِنٍ وَلا مُؤمِنَةٍ إِذا قَضَى اللَّهُ وَرَ‌سولُهُ أَمرً‌ا أَن يَكونَ لَهُمُ الخِيَرَ‌ةُ مِن أَمرِ‌هِم.....٣٦ ﴾..... سورة البقرة
"کسی موٴمن مرد اور کسی موٴمن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردے تو پھر اسے اپنے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے"
﴿فَإِن تَنـٰزَعتُم فى شَىءٍ فَرُ‌دّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّ‌سولِ......٥٩ ﴾..... سورة النساء
"پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو"
سید مودودی فرماتے ہیں:
"رسول ، اللہ کی طرف سے مامور کیا ہوا فرمانروا ہے۔ اس کی فرمانروائی اس کے منصب رسالت سے الگ کوئی چیز نہیں ہے بلکہ اس کا رسول ہونا ہی اللہ کی طرف سے اس کا حاکم مطاع ہونا ہے۔ اس کی اطاعت عین اللہ کی اطاعت ہے اور اس سے بیعت دراصل اللہ سیبیعت ہے، اس کی اطاعت نہ کرنے کے معنی اس کی نافرمانی کے ہیں"10
انبیاءِ کرام کی رشد وہدایت کی تحریک خود ساختہ نہیں ہوتی۔ ان کی نبوت و رسالت کا مقام، اکتساب اورمحنت کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ منصب ِرسالت پرانہیں اللہ تعالیٰ فائز فرماتا ہے جس کا مقصدفکروعمل اور شب و روز کے سارے کاموں میں انسانوں کو رہنمائی دینا اور ان کے سامنے بہترین نمونہٴ عمل پیش کرنا ہوتا ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے: ﴿وَجَعَلنـٰهُم أَئِمَّةً يَهدونَ بِأَمرِ‌نا......٧٣ ﴾..... سورة الانبياء
رسول، اللہ کی طرف سے مقرر کردہ ہادی اور امام ہوتے ہیں۔ اللہ کا رسول امرونہی کا اختیار رکھتا ہے اور شارع ہوتا ہے۔ قرآن مجیدکے بیان میں اس سلسلے میں کوئی ابہام نہیں ہے :
﴿يَأمُرُ‌هُم بِالمَعر‌وفِ وَيَنهىٰهُم عَنِ المُنكَرِ‌ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبـٰتِ وَيُحَرِّ‌مُ عَلَيهِمُ الخَبـٰئِثَ وَيَضَعُ عَنهُم إِصرَ‌هُم وَالأَغلـٰلَ الَّتى كانَت عَلَيهِم.....١٥٧ ﴾.... سورة الاعراف
"وہ انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لئے پاکیزہ چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے اوران پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے"
سید مودودی لکھتے ہیں :
" آیت کے الفاظ اس امر میں بالکل صریح ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تشریعی اختیارات عطا کئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے امرونہی، تحلیل و تحریم صرف وہی نہیں ہے جو قرآن میں بیان ہوئی ہے بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حلال و حرام ٹھہرایا ہوا اور آپ کا امر ونہی اللہ کے دیئے ہوئے اِختیارات سے ہے"11
ڈاکٹر مصطفی سباعی انبیاءِ کرام کے تشریعی مقام کے بارے میں لکھتے ہیں:
«فقد جاء ت أحاديث کثيرة تدل علی أن الشريعة تتکون من الأمرين معا الکتاب والسنة وأن في السنة ما ليس في الکتاب وأنه يجب الأخذ بما في السنة من الأحکام کما يوٴخذ بما في الکتاب»12
"بے شمار اَحادیث وارد ہوئی ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ شریعت دو اُصولوں سے بنتی ہے: کتاب اور سنت۔ اور سنت میں وہ کچھ ہوتا ہے جو کتاب میں نہیں ملتا ۔ تو جس طرح قرآن سے اَحکام اخذکرنا واجب ہے، اسی طرح سنت سے احکام اَخذ کرنا بھی واجب ہے"
رسول بحیثیت ِ حَکم و قاضی
انسانی معاشرت میں فطری طور پربعض معاملاتِ زندگی میں باہم اختلاف و نزاع واقع ہوجاتا ہے۔ ایسے مواقع پر فیصلہ کون کرے اور فیصلے کا اصول کیا ہو؟ وحی الٰہی اس کا واضح جواب یہ دیتی ہے کہ نزاعی معاملات کا فیصلہ قرآنی اَحکام و تعلیمات کی بنیاد پر ہوتا اورحکم و قاضی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں گے۔ بلکہ آپ کا مقام و حیثیت یہ ہے کہ جب تک آپ کواپنے معاملات میں حکم و قاضی نہ مانا جائے اور آپ کے فیصلوں کے سامنے سرتسلیم خم نہ کیا جائے اس وقت تک کوئی شخص موٴمن نہیں ہوسکتا۔
قرآن مجید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مقام اور حیثیت کی وضاحت یوں کرتا ہے :
﴿فَلا وَرَ‌بِّكَ لا يُؤمِنونَ حَتّىٰ يُحَكِّموكَ فيما شَجَرَ‌ بَينَهُم ثُمَّ لا يَجِدوا فى أَنفُسِهِم حَرَ‌جًا مِمّا قَضَيتَ وَيُسَلِّموا تَسليمًا ٦٥ ﴾..... سورة النساء
"نہیں اے محمد! تمہارے ربّ کی قسم یہ کبھی موٴمن نہیں ہوسکتے جب تک اپنے باہمی اختلافات میں یہ آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جوکچھ آپ فیصلہ کریں، اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں بلکہ سربسرتسلیم کرلیں"۔
فخر الدین رازی ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے تشتریعی مقام کی توضیح و تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"آپ ختم المرسلین ہیں اور آپ کی شریعت آخری شریعت ہے، لہٰذا اب ہر صورت میں آپ کو آخری شارع مانناہوگا اور آپ کے لائے ہوئے شرعی اَحکام، قرآن و سنت ضابطہ زندگی قرار پائیں گے۔ ہر رسول شریعت لے کر آیا لیکن محدود وقت کے لئے۔ خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بعثت کے وقت کسی شریعت پر نہ تھے کیونکہ سابقہ انبیاء کرام کی شریعتیں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے آنے پر منسوخ ہوگئیں جبکہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی شریعت عیسائیوں کے عقیدئہ تثلیث اور شرک و کفر اختیار کرنے کی وجہ سے ختم ہوچکی تھی۔چنانچہ نبی ٴ آخر الزمان کے آجانے کے بعد سابقہ تمام انبیاءِ کرام کا تشریعی مقام ختم ہوچکا تھا اورکوئی بھی شریعت موجود نہ تھی۔13
اسلام ، ساری انسانیت کاایک ہی دین
قرآن مجید اس بات کو صراحت کے ساتھ بیان کرتا ہے کہ روزِ اول سے انسانیت کا دین اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔دین اسلام ہی تمام انسانوں کے لئے شاہراہِ ہدایت ہے اور دنیوی و اُخروی فوزوفلاح کا بہترین نسخہ ہے۔ قرآن مجید دین اسلام کو دین حق، دین فہم اور دین فطرت قرار دیتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے۔ اس لئے قرآن مجید میں یہ بات بھی کھول کر بیان کردی گئی ہے کہ کوئی شخص یا گروہ اگر دین اسلام کو چھوڑ کر کوئی اور راہ اختیار کرے تو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کی جائے گی۔مذکورہ حقائق کو قرآن مجید یوں بیان کرتا ہے، فرمایا:
﴿إِنَّ الدّينَ عِندَ اللَّهِ الإِسلـٰمُ......١٩ ﴾.....سورة آل عمران "اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے"
﴿أَفَغَيرَ‌ دينِ اللَّهِ يَبغونَ.........٨٣ ﴾....... سورة آل عمران
"کیا وہ اللہ تعالیٰ کے دین کے سوا کسی اور دین کی تلاش میں ہیں"
﴿أَمَرَ‌ أَلّا تَعبُدوا إِلّا إِيّاهُ ۚ ذ‌ٰلِكَ الدّينُ القَيِّمُ وَلـٰكِنَّ أَكثَرَ‌ النّاسِ لا يَعلَمونَ ٤٠ ﴾...... سورة يوسف
"اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں"
﴿فَأَقِم وَجهَكَ لِلدّينِ حَنيفًا ۚ فِطرَ‌تَ اللَّهِ الَّتى فَطَرَ‌ النّاسَ عَلَيها ۚ لا تَبديلَ لِخَلقِ اللَّهِ ۚ ذ‌ٰلِكَ الدّينُ القَيِّمُ وَلـٰكِنَّ أَكثَرَ‌ النّاسِ لا يَعلَمونَ ٣٠ ﴾..... سورة الروم
"پس یکسو ہو کر اپنا رخ اس دین کی سمت میں جما دو، قائم ہوجاؤ اس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جاسکتی، یہی بالکل 'راست اور درست دین 'ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں"
دین اسلام فطری نظامِ زندگی ہے۔ دین حق ہے اوراللہ کا دین ہے لہٰذا جو کوئی کسی دوسرے طریقے کو اپنے جینے مرنے کے لئے پسند کرے گا تو یہ روِش ہرگز قابل قبول نہ ہوگی۔ ارشادِ الٰہی ہے:
﴿وَمَن يَبتَغِ غَيرَ‌ الإِسلـٰمِ دينًا فَلَن يُقبَلَ مِنهُ وَهُوَ فِى الءاخِرَ‌ةِ مِنَ الخـٰسِر‌ينَ ٨٥ ﴾..... سورة آل عمران
"جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے ، اس کا وہ دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اُٹھائے گا"
چونکہ دین حق ہی دراصل وہ واحد دین ہے جو واقعةً دنیا و آخرت میں انسانی فلاح کی حقیقی ضمانت دیتا ہے لہٰذا دیگر اَدیانِ عالم پر اس سچے دین کو غلبہ دینے کے لئے خاتم الانبیاء حضرت محمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی، فرمایا:
﴿هُوَ الَّذى أَر‌سَلَ رَ‌سولَهُ بِالهُدىٰ وَدينِ الحَقِّ لِيُظهِرَ‌هُ عَلَى الدّينِ كُلِّهِ وَلَو كَرِ‌هَ المُشرِ‌كونَ ٣٣ ﴾...... سورة التوبة "وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کربھیجا ہے تاکہ اسے دیگر تمام مذاہب پر غالب کردے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو"
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت و تبلیغ، ہجرت و جہاد اور شب و روز کی محنت سے اللہ کی دھرتی پر دین اسلام کو جاری و ساری اورغالب کردیا۔ آپ ہی کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کے تفصیلی ضابطوں اور اَحکام کی تکمیل فرما دی۔تکمیل دین کی یہ نوید سناتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
﴿اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَ‌ضيتُ لَكُمُ الإِسلـٰمَ دينًا......٣ ﴾.......سورة المائدة " آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے"
مذکورہ آیات سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ سارے انسانوں کے لئے خیر و فلاح کا اور دنیا وآخرت کی بھلائی کا بس ایک ہی رستہ ہے اور وہ ہے اللہ کا دین:'اسلام' البتہ جو اختلاف ہے وہ ہر دور کی شریعت اور تفصیلی اَحکام کا اختلاف ہے اور یہ اس لئے کہ انسانی مصلحت کا تقاضا ہو تو وہاں شرعی اَحکام اور فروع میں کمی بیشی اور ردّوبدل ضروری ہوجاتا ہے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں: "انبیاءِ کرام کا دین ایک ہی ہے۔ ان سب نے اسی کی تبلیغ کی ہے اور تمام بنی نوع انسان کے لئے وہی دین واجب الاتباع ہے" ۔ارشادِ الٰہی ہے:
﴿شَرَ‌عَ لَكُم مِنَ الدّينِ ما وَصّىٰ بِهِ نوحًا وَالَّذى أَوحَينا إِلَيكَ وَما وَصَّينا بِهِ إِبر‌ٰ‌هيمَ وَموسىٰ وَعيسىٰ ۖ أَن أَقيمُوا الدّينَ وَلا تَتَفَرَّ‌قوا فيهِ......١٣ ﴾.... سورة شورىٰ
"اس نے تمہارے لئے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح علیہ السلام کو دیا تھا اور جسے (اے محمد ا) اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے سے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم اور موسیٰ اور عیسٰی علیہم السلام کو دے چکے ہیں، اس تاکید کے ساتھ کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا"
مناہج و شرائع کا ا ختلاف
دین کی اس یکسانیت کے باوجود مختلف اُمتوں کے لئے ان کے خصوصی حالات اور مصلحتوں کے مطابق اکثر ان کی شریعت ، ضوابط اور قوانین میں فرق موجود تھا۔ یہاں تک کہ دین اسلام کی تکمیل ہوگئی اور نبوت و ر سالت کا دروازہ قیامت تک کے لئے بند کردیا گیا۔ مختلف اُمتوں کی مصلحتوں اور ان کے اَحکام میں اختلاف کے بارے میں علامہ زمخشری لکھتے ہیں :
«والشرائع مصالح تختلف باختلاف الأحوال والأوقات فلکل وقت حکم يکتب علی العباد أي يفرض عليهم علی ما يقتضيه استصلاحهم»14
"شریعتوں کی مصلحتیں ہوتی ہیں جن میں احوال و اوقات کے مختلف ہونے کی وجہ سے باہم اختلاف ہوتا ہے۔ ہر وقت اور زمانے کے لئے ایک حکم ہوتا ہے جو بندوں کو دیا جاتاہے یعنی اس حکم کی فرضیت بتقاضائے مصلحت ان پر کی جاتی ہے"
فخر الدین رازی ا ختلافِ شرائع اور دین کی تکمیل کی توضیح فرماتے ہوئے لکھتے ہیں :
«إن الدين ما کان ناقصا البتة بل کان أبداً کاملا يعنی کانت الشرائع النازلة من عند الله في کل وقت کافية في ذلك الوقت ... وما في آخر زمان المبعث فأنزل الله شريعة کاملة وحکم ببقائها إلی يوم القيمة ... فالشرع أبدا کان کاملا... إلا أن الأول کمال إلی زمان مخصوص... والثاني کمال إلی يوم القيمة فلأجل هذا المعنیٰ »قال: ﴿اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم﴾"15
"دین اسلام کبھی بھی ناقص نہیں رہا۔ ہر دور میں نازل ہونے والی شریعتیں اپنے اپنے دور کے لئے کافی تھیں، لیکن آخری بعثت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مکمل شریعت اُتاری اور قیامت تک اس کے باقی اور جاری رہنے کا حکم فرمایا۔ اب اس میں کسی حذف و اضافہ اور نسخ و ترمیم کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔ شریعت ہمیشہ مکمل تھی، ہر پہلی شریعت اس زمانے کے لئے مکمل تھی اوریہ آخری شریعت قیامت تک کے لئے مکمل ہے۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ "آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا ہے۔"
آپ کے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ کوئی نئی شریعت۔ خاتم الانبیاء والرسل کی لائی ہوئی شریعت قیامت تک رہنے والی ہے۔ جبکہ آپ ہر اَسود و احمر، عربی و عجمی کے لئے اللہ کے آخری رسول اور رہنما ہیں...کچھ اُصولی باتوں کی دعوت پر انبیاءِ کرام علیہم السلام کے اتفاق و اتحاد کا تذکرہ کرتے ہوئے فخرالدین رازی لکھتے ہیں :
«فيجب أن يکون المراد منه الأمور التي لا تختلف باختلاف الشرائع، وهي الإيمان بالله وملئکته وکتبه ورسله واليوم الآخر والإيمان يوجب الإعراض عن الدنيا والإقبال علی الآخرة والسعي في مکارم الأخلاق والاحتراز عن رذائل الأحوال...الخ»16
"اختلافِ شرائع کے باوجود وہ اصول جن میں انبیاءِ کرام کی دعوت یکساں رہتی ہے، وہ ہیں: اللہ، ملائکہ، کتب، رسولوں اور آخرت پر ایمان اور ایمان دنیا سے اِعراض اور آخرت کی طرف توجہ کا تقاضا کرتا ہے۔ مکارمِ اخلاق کیلئے سعی و کوشش اور رذائل اخلاق سے احتراز کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ عدل و احسان اور صدق ساری شریعتوں میں پسندیدہ ہے جبکہ کذب ، ظلم اور ایذا ناپسندیدہ ہے"
قرآن مجید کی اس طرح کی آیات کا جن میں تمام انبیاء کرام کا دین ایک ہی بتایا گیا ہے، دوسری آیات سے بظاہر تعارض نظر آتا ہے۔ مثلاً ایک جگہ فرمایا ہے :
﴿لِكُلٍّ جَعَلنا مِنكُم شِر‌عَةً وَمِنهاجًا ۚ وَلَو شاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُم أُمَّةً و‌ٰحِدَةً وَلـٰكِن لِيَبلُوَكُم فى ما ءاتىٰكُم ۖ فَاستَبِقُوا الخَير‌ٰ‌تِ.....٤٨ ﴾.... سورة المائدة
"ہم نے تم (انسانوں) میں سے ہر ایک کے لئے ایک شریعت اور ایک راہِ عمل مقرر کی۔ اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک اُمت بھی بنا سکتا تھا، لیکن اس نے یہ اس لئے کیا کہ جو کچھ اس نے تم لوگوں کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے۔ لہٰذا بھلائیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو"
فخر الدین رازی ایسی آیاتِ قرآنیہ میں تطبیق دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
«النوع الأول من الآيات مصروف إلی ما يتعلق بأصول الدين... والنوع الثاني مصروف إلی ما يتعلق بفروع الدين»17
"پہلی قسم کی آیات کا تعلق اُصولِ دین سے ہے، جبکہ دوسری آیات کا تعلق فروعِ دین سے ہے"
رازی'شرعة ومنھاجاسے مراد مختلف شرائع لیتے ہیں۔ ان کے نزدیک تورات شریعت ہے، انجیل شریعت ہے اور قرآن شریعت ہے، جبکہ اختلافِ شرائع کی حکمت مکلّفین کے جذبہ اطاعت کی آزمائش ہے۔"18
انبیا ء کرام علیہم السلام کا تشریعی مقام یہ ہے کہ وہ اپنی اپنی اُمتوں کو اصولِ دین کی تعلیم دینے کے ساتھ فروع کے سلسلے میں حالات اور وقت کے تقاضوں کے مطابق اَحکام دیتے رہے۔ ان سب کا مقام اپنی اپنی امت کے لئے حاکم ، قاضی اور شارع کارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی آخرالزمان سے خطاب فرمایا:
﴿ثُمَّ جَعَلنـٰكَ عَلىٰ شَر‌يعَةٍ مِنَ الأَمرِ‌ فَاتَّبِعها وَلا تَتَّبِع أَهواءَ الَّذينَ لا يَعلَمونَ ١٨ ﴾...... سورة الجاثية
"اس کے بعد اے نبی! ہم نے آپ کو دین کے معاملے میں ایک صاف شاہراہ (شریعت) پر قائم کیا ہے۔لہٰذا تم اسی پر چلو اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو جو علم نہیں رکھتے"
شریعت کی جو تفصیلات آپ لے کر آئے، اب قیامت تک ان میں کسی تغیر و تبدل کی ضرورت نہیں رہی۔ آپ دائمی و کامل شریعت کے ساتھ مبعوث ہوئے ہیں جسمیں جامعیت اور ہمہ گیری پائی جاتی ہے۔ آپ کی شریعت کے بعد کوئی شریعت نہیں، لہٰذا آپ تمام شارعین کرام کے اِمام اور 'خاتم' کی حیثیت رکھتے ہیں۔فخر الدین رازی فرماتے ہیں:
"دلائل عقلیہ سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ دنیا وآخرت میں انسانی کمال یہ ہے کہ وہ حق کو جانے اور خیر کو پہنچانے تاکہ اس پر عمل پیرا ہوسکے۔ بہترین عمل دنیا سے منہ موڑ کر آخرت کی طرف توجہ کرناہے۔ انسانی امارت کا تعلق ان دونوں باتوں سے ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ انبیا ءِ کرام پہلے انبیاءِ کرام کی شریعتوں کو منسوخ کرتے رہے۔ مگر یہ نسخ اصل میں مقصود نہیں ہوتا بلکہ کچھ امورِ زائدہ میں واقع ہوتا ہے"۔19
دوسری بات یہ ہے کہ بنیادی قواعد اور اُصولی باتوں میں شریعتوں کا باہم فرق نہیں ہے۔ فرق دراصل فروع اور زوائد میں ہے۔ رازی فرماتے ہیں: «التفاوت في الشرائع ما وقع في هذه القواعد الشرعية والمهمات الأصلية وإنما واقع في الفروع والزوائد»20
تکمیل شریعت ... رازی کا تجزیہ و تبصرہ
فخر الدین رازی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تکمیلی کام کے بارے میں تقابلی جائزہ پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں
"انبیاء و رسل اَرواحِ بشریہ کا علاج کرتے ہیں اور ان کا رُخ غیراللہ سے موڑ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف کرتے ہیں۔ انبیاءِ کرام میں سے جس درجے میں بھی ان فوائد کا گذرہوگا وہ اسی قدر عظیم اورکامل ہوگا۔ جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی دعوت بنی اسرائیل تک محدود تھی۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی دعوت کااثر بہت تھوڑے لوگوں پر ظاہر ہوا۔ نصاریٰ نے باپ بیٹا اور روح القدس کی تثلیث کا فاسد عقیدہ گھڑ کربدترین کفر کا ا رتکاب کیا اوریہ ان کی بدترین جہالت تھی۔ اوریہچیز کسی نبی کی پاکیزہ اور خالص دعوت سے بعید تر ہے۔ جبکہ ان کی دعوت خالص توحید و تنزیہ کے عقیدے پر مشتمل تھی۔ مجوسی دو خداؤں کی پوجا پاٹ کا غلط نظریہ رکھتے تھے اوربہنوں، بیٹیوں کے ساتھ نکاح کو جائز سمجھتے تھے۔ صائبین کواکب پرستی کا شکار تھے اوربت پرست شجرو حجر کی پرستش میں مگن تھے"
"ان حالات میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعوتِ توحید لے کر تشریف لائے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو پورے عالم کی طرف نبی بنا کر بھیجا۔ آپ کی آمد سے اَدیانِ باطلہ اور خیالاتِ فاسدہ کا خاتمہ ہوگیا۔ توحید کے چراغ روشن ہوگئے، انسانی قلوب توحید وتنزیہ کے پاکیزہ اورسچے اَفکار سے معمور ہوگئے۔بیمار دلوں اور تاریک سینوں کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت تاثیر کے اعتبار سے دیگر تمام انبیاء کرام علیہم السلام سے بڑھ کر تھی۔ لہٰذا محمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء و رسل علیہم السلام سے افضل ہیں۔ روحانی علاج کی تاثیر اور ہمہ گیر شریعت اور عالمی اثرات کے اعتبار سے ختم المرسلین، رحمة للعالمین کے کمالات کا کوئی ثانی نہیں" ...صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!21
یہود و نصاریٰ، مجوس اور دنیا بھرکے مشرکین گم کردہ راہ ہیں۔ فکروعمل کے اعتبار سے حیران وسرگرداں ہیں۔ تاریکیوں نے انہیں گھیر رکھا ہے۔ حصولِ سعادت کے لئے انہیں دین اسلام کی طرف پلٹنا ہوگا۔ بے خبری کی دنیا سے نکل کر قرآنی سچائیوں کا اعتراف و اقرار کرنا ہوگا۔ دل و دماغ کی تاریکیوں اور تنگ گھاٹیوں سے نکل کر دین فطرت کے پیش کردہ شرعی قواعد و قوانین کو زندگی کا حصہ بنانا ہوگا۔ علم وبصیرت اورانسانی عقل و فہم اسی با ت کی گواہی دیتے ہیں کہ دین اسلام آخری شریعت اور حضرت محمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم آخری شارع ہیں۔ دین اپنی اسی خوبصورت شکل میں ایمان و امن کی ضمانت دیتا ہے اور رہتی دنیا تک کے سارے انسانوں کے مسائل کا حل اوران کے ذہنی سوالات اور اضطراب کا جواب پیش کرتا ہے۔ دین اسلام فی الواقع انسانی دکھوں کا مداوا ہے ۔ دنیا و آخرت کے لئے فلاح اورراہِ نجات ہے!


نوٹ
1. اللہ کی دی ہوئی شریعت چونکہ انبیاء کے ذریعے سے انسانوں تک پہنچی اور ان پر نافذ ہوتی ہے لہذا مجازی معنی میں انہیں بھی ’شارع‘ کہہ دیا جاتا ہے وگرنہ درحقیقت شارع صرف اللہ کی ذات ہے۔(محدث)

حوالہ جات

1۔ معارف الحدیث: ۱/۴۱ 

2۔ ترجمان السنة :۱/۱۵۳
3۔سنت کی آئینی حیثیت: ص ۸۵ 

4۔مفاتیح الغیب: ۹/۱۲۸
5۔مفاتیح الغیب : ۹/۱۲۹   

6۔مفاتیح الغیب:۳/۱۶۱
المباحث الشرقیة: ۲/۵۲۴ ۱۱

المحصول فی علم الاصول:ص ۳۴۹
المحصول فی علم الاصول : ص ۳۴۹ ۱۴۔

10. ایضاً: ص ۳۵۷ ۱۵۔
11۔الفتح: ۴۸/۱۰
12۔سنت کی آئینی حیثیت: ص ۸۳

13۔معارف الحدیث :۱/۴۳
14۔سنت کی آئینی حیثیت: ص ۷۹ / حفاظت ِحدیث: ص ۷۲
15۔السنة و مکانتھا ...: ص ۴۳۰ 

16۔المحصل حاشیہ : ص۱۱
17۔الکشاف : ۲/۴۱۶
18۔مفاتیح الغیب: ۱۱/۱۰۹

19۔مفاتیح الغیب: ۲۷/۱۳۵
20۔مفاتیح الغیب: ۱۲/۱۲

21۔مفاتیح الغیب: ۱۲/۱۲
۴۲۔المطالب العالیة:۹/۸۷ ۴۳۔المطالب العالیة:۹/۸۸ ۴۴۔المطالب العالیة:۹/۱۲۲
مصادر و مراجع
خالد علوی، ڈاکٹر پروفیسر حفاظت ِحدیث۔ الفصیل ناشران کتب لاہور ، ۱۹۹۹ء
رازی فخر الدین محمدبن عمر مفاتیح الغیب ۔ دارالکتب العلمیة بیروت، ۱۹۹۰ء
رازی فخر الدین محمدبن عمر المباحث المشرقیہ۔ دارالمعارف النظامیہ حیدر آباد دکن، ۱۳۴۳ھ
رازی فخر الدین محمدبن عمر المحصول فی علم اصول الفقہ۔ جامعة الامام محمدالسعودیة،۱۹۷۹ء
رازی فخر الدین محمدبن عمر المحصل......، جامعة الامام محمد السعودیة، ۱۹۷۹ء
رازی فخر الدین محمدبن عمر المطالب العالیة، دارالکتب العربی بیروت، ۱۹۸۷ء
زمخشری محمود بن عمر الکشاف۔ مطبعة الاتقامة القاھرہ، ۱۹۵۳ء
السباعي مصطفی الدکتور السنة ومکانتھا في التشریح الإسلامي، مکتبہ دارالعروبة قاہرة، ۱۹۸۱ء
شاہ ولی اللہ حجةاللہ البالغة۔ قومی کتب خانہ لاہور، ۱۹۸۳ء
میرٹھی محمدبدر عالم ترجمان السنة ۔ مکتبہ مدینہ، اردو بازار لاہور، ( س ، ن)
مودودی ابوالاعلی سید سنت کی آئینی حیثیت۔ اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، ۱۹۶۱ء
نعمانی منظور معارف الحدیث، دارالاشاعت اردو بازار ، کراچی، ۱۹۸۳ء