اَمیروں کے مال میں غریبوں کا حق

اسلام واحد دین ہے جس نے انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کو پیش نظر رکھا ہے اور اُن کے بارے میں کامل رہنمائی د ی ہے۔ دین اسلام کے سوا دنیا میں کوئی مذہب ایسا نہیں جو اپنی تعلیمات کے لحاظ سے اس قدر جامع اور ہمہ گیر ہو کہ اس میں روحانیت، اخلاق، معاشرت، معیشت اور سیاست سے متعلق مکمل تعلیم و رہنمائی پائی جاتی ہو۔

معاش بھی انسانی زندگی کااہم مسئلہ ہے۔ اس کے حل کے لئے اسلام نے ہمیں بہترین نظامِ معیشت دیا ہے جس کے ذریعے نہ صرف انسانوں کی تمام بنیادی ضروریات پوری ہوتی ہیں بلکہ وہ ایک خوشحال زندگی بسر کرسکتے ہیں ۔ رہے وہ لوگ جو معاشی دوڑ میں کسی طرح پیچھے رہ جاتے ہیں ، ان ناداروں ، حاجت مندوں اور معذوروں کی کفالت کے لئے اسلام نے دولت مندوں کے مال میں ایک مقررہ حق اور حصہ رکھ دیا ہے۔

اگر ہم قرآنِ مجید میں اس پہلو سے غور کریں کہ اس نے مال داروں کے مال میں ناداروں کے لئے کیا کچھ رکھا ہے، تو ہمیں درج ذیل قرآنی احکامات ملتے ہیں :
قرآن میں اغنیا کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے مال کاایک حصہ غریب حاجت مندوں پر صرف کریں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وہی متقی لوگ بہشت کے باغوں میں اور چشموں کے کناروں پر عیش سے رہیں گے جن کے مال کا ایک حصہ دنیا میں غریبوں اور ضرورت مندوں پر خرچ ہوتا تھا :
إِنَّ ٱلْمُتَّقِينَ فِى جَنَّـٰتٍ وَعُيُونٍ ﴿١٥﴾ ءَاخِذِينَ مَآ ءَاتَىٰهُمْ رَ‌بُّهُمْ ۚ إِنَّهُمْ كَانُواقَبْلَ ذَ‌ٰلِكَ مُحْسِنِينَ ﴿١٦﴾ كَانُوا قَلِيلًا مِّنَ ٱلَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ ﴿١٧﴾ وَبِٱلْأَسْحَارِ‌ هُمْ يَسْتَغْفِرُ‌ونَ ﴿١٨﴾ وَفِىٓ أَمْوَ‌ٰلِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَٱلْمَحْرُ‌ومِ ﴿١٩...سورۃ الذاریات
''بے شک پرہیزگار لوگ بہشتوں اور چشموں میں عیش کریں گے... اُن کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے محتاج کا حصہ ہوتا تھا۔''

دوسرے مقام پر فرمایاکہ جو دولت مند اپنی دولت کا ایک حصہ حاجت مندوں کی کفالت پر خرچ کرتے ہیں ، وہ اعزاز و اِکرام کے ساتھ جنت میں داخل ہوں گے :
وَٱلَّذِينَ فِىٓ أَمْوَ‌ٰلِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ﴿٢٤﴾ لِّلسَّآئِلِ وَٱلْمَحْرُ‌ومِ ﴿٢٥...سورہ المعارج
اور جن کے مال میں حصہ مقرر ہے، مانگنے والے کا بھی اور نہ مانگنے والے محتاج کا بھی

أُولَـٰٓئِكَ فِى جَنَّـٰتٍ مُّكْرَ‌مُونَ ﴿٣٥...سورہ المعارج

 وہی لوگ جنت کے باغوں میں عزت و اکرام کے ساتھ رہیں گے

ارشاد ہوا کہ مسلمانوں کو جہاں اپنے والدین اور دوسرے عزیز و اقارب پر اپنا مال خرچ کرنا ہے، وہاں یتیموں ، مسکینوں اور حاجت مندوں مسافروں کو بھول نہیں جانا بلکہ اُن پر بھی اپنے مال کا کچھ حصہ ضرور صرف کرنا ہے :
يَسْـَٔلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ ۖ قُلْ مَآ أَنفَقْتُم مِّنْ خَيْرٍ‌ۢ فَلِلْوَ‌ٰلِدَيْنِ وَٱلْأَقْرَ‌بِينَ وَٱلْيَتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰكِينِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِيلِ ۗ وَمَا تَفْعَلُوامِنْ خَيْرٍ‌ۢ فَإِنَّ ٱللَّهَ بِهِۦ عَلِيمٌ ﴿٢١٥...سورۃ البقرۃ
''اے نبیؐ! لوگ آپؐ سے پوچھتے ہیں کہ اپنا مال کہاں خر چ کریں ؟ آپؐ کہہ دیں کہ جو مال خرچ کرو وہ والدین، قریبی رشتہ داروں ، یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو، اور تم جو بھلائی بھی کرو گے، اللہ اُسے جانتا ہے۔''

یہ بھی فرمایا کہ اپنی ضروریات سے زائد سارے کا سارا مال غریبوں اور ناداروں پر صَرف کردینا چاہئے :
وَيَسْـَٔلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ ٱلْعَفْوَ ۗ...﴿٢١٩﴾...سورۃ البقرۃ
''اے نبیؐ! لوگ آپؐ سے پوچھتے ہیں کہ کون سا مال خرچ کریں ؟ آپؐ کہہ دیں کہ جو ضرورت سے زیادہ ہو۔''

مالِ زکوٰة کے مصارف میں سب سے پہلا حصہ غریبوں اور حاجت مندوں ہی کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے :
إِنَّمَا ٱلصَّدَقَـٰتُ لِلْفُقَرَ‌آءِ وَٱلْمَسَـٰكِينِ وَٱلْعَـٰمِلِينَ عَلَيْهَا وَٱلْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِى ٱلرِّ‌قَابِ وَٱلْغَـٰرِ‌مِينَ وَفِى سَبِيلِ ٱللَّهِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِيلِ ۖ فَرِ‌يضَةً مِّنَ ٱللَّهِ ۗ وَٱللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴿٦٠...سورۃ التوبہ
''صدقات یعنی زکوٰة خرچ ہو، ناداروں پر، محتاجوں پر، عاملین زکوٰة پر، اُن پر جن کی تالیف قلب مقصود ہے، غلاموں کو آزاد کرانے پر، قرضداروں پر، اللہ کی راہ میں اور مسافروں پر۔ یہ فرض ہے اللہ کی طرف سے۔ اور اللہ سب کچھ جانتا اور حکمت والا ہے۔''

زمینی پیداوار کی زکوٰة جسے عُشر کہا جاتا ہے اس کے لئے قرآن نے جو 'حق' کالفظ استعمال کیا ہے، اس مال میں بھی ناداروں کا حصہ شامل کردیا گیا ہے :
وَهُوَ ٱلَّذِىٓ أَنشَأَ جَنَّـٰتٍ مَّعْرُ‌وشَـٰتٍ وَغَيْرَ‌ مَعْرُ‌وشَـٰتٍ وَٱلنَّخْلَ وَٱلزَّرْ‌عَ مُخْتَلِفًا أُكُلُهُۥ وَٱلزَّيْتُونَ وَٱلرُّ‌مَّانَ مُتَشَـٰبِهًا وَغَيْرَ‌ مُتَشَـٰبِهٍ ۚ كُلُوامِن ثَمَرِ‌هِۦٓ إِذَآ أَثْمَرَ‌ وَءَاتُوا حَقَّهُۥ يَوْمَ حَصَادِهِۦ ۖ وَلَا تُسْرِ‌فُوٓا  إِنَّهُۥ لَا يُحِبُّ ٱلْمُسْرِ‌فِينَ ﴿١٤١...سورۃ الانعام
''اور وہی اللہ ہے جس نے باغ پیدا کئے جو سہارے پر چڑھائے ہوتے ہیں اوربغیر سہاروں کے بھی ہوتے ہیں اورکھجور اور کھیتی بھی جن میں طرح طرح کے پھل ہوتے ہیں اور زیتون اور انار بھی جو ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور غیر مشابہ بھی ہوتے ہیں ۔ جب یہ چیزیں پھل دیں تو ان کے پھل کھاؤ اور جس دن فصل حاصل کرو تو اس کا حق (حصہ) بھی ادا کرو۔ اور فضول خرچی نہ کرو۔ اللہ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔''

مالِ فئے یعنی کفار کا وہ مال جو بغیر جنگ لڑے مسلمانوں کے ہاتھ لگے، اس میں بھی غریبوں ، مسکینوں کا حصہ رکھا گیاہے تاکہ کہیں ارتکازِ دولت نہ ہو بلکہ مال و دولت گردش میں رہے اور سب اس سے مستفید ہوسکیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
مَّآ أَفَآءَ ٱللَّهُ عَلَىٰ رَ‌سُولِهِۦ مِنْ أَهْلِ ٱلْقُرَ‌ىٰ فَلِلَّهِ وَلِلرَّ‌سُولِ وَلِذِى ٱلْقُرْ‌بَىٰ وَٱلْيَتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰكِينِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِيلِ كَىْ لَا يَكُونَ دُولَةًۢ بَيْنَ ٱلْأَغْنِيَآءِ مِنكُمْ...﴿٧﴾...سورۃ الحشر
''جو مال اللہ نے اپنے رسولؐ کو بستیوں والوں سے بطورِ فئے دلوایا ہے، اس میں حق ہے اللہ کا اور اس کے رسولؐ کا اور رسولؐ کے رشتہ داروں ، یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں کا۔ تاکہ گردشِ دولت صرف تمہارے مال داروں ہی میں محدود نہ رہے۔''

وہ لوگ جو معاشرے کی اجتماعی خدمت پر مامور ہوں اور اس مصروفیت کی وجہ سے وہ اپنی معاش کے حصول کے لئے جدوجہد نہ کرسکیں ، ایسے 'سفید پوش' حاجت مندوں کے لئے قرآن مجید نے خاص طور پر حکم دیاہے کہ مالدار لوگ ان پربھی اپنا مال خرچ کیا کریں ، کیونکہ وہ کسی سے مانگنا پسند نہیں کرتے :
لِلْفُقَرَ‌آءِ ٱلَّذِينَ أُحْصِرُ‌وا فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْ‌بًا فِى ٱلْأَرْ‌ضِ يَحْسَبُهُمُ ٱلْجَاهِلُ أَغْنِيَآءَ مِنَ ٱلتَّعَفُّفِ تَعْرِ‌فُهُم بِسِيمَـٰهُمْ لَا يَسْـَٔلُونَ ٱلنَّاسَ إِلْحَافًا ۗ وَمَا تُنفِقُوامِنْ خَيْرٍ‌ۢ فَإِنَّ ٱللَّهَ بِهِۦ عَلِيمٌ ﴿٢٧٣...سورۃ البقرۃ
''اور اُن ضرورت مندوں پر بھی خرچ کرو جو اللہ کی راہ میں مشغول بیٹھے ہیں اور زمین میں چل پھر کر اپنی معاش کا بندوبست نہیں کرسکتے، ناواقف آدمی اُنہیں خوشحال سمجھتا ہے، کیونکہ وہ کسی سے مانگتے نہیں ۔ تم اندازے سے اُن کو صاف پہچان سکتے ہو، وہ لوگوں سے لپٹ کر نہیں مانگتے۔ اور تم جو کچھ خرچ کرو گے اللہ سب کچھ جانتا ہے۔''

فرمایا غریبوں اور نادراوں پر صدقہ و خیرات کرنا علانیہ بھی جائز ہے، لیکن پوشیدہ طور پر خرچ کرنا زیادہ بہتر ہے، کیونکہ اس طرح ریاکاری کا شائبہ نہیں رہتا۔
إِن تُبْدُوا ٱلصَّدَقَـٰتِ فَنِعِمَّا هِىَ ۖ وَإِن تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا ٱلْفُقَرَ‌آءَ فَهُوَ خَيْرٌ‌ لَّكُمْ ۚ وَيُكَفِّرُ‌ عَنكُم مِّن سَيِّـَٔاتِكُمْ ۗ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ‌﴿٢٧١...سورۃ البقرۃ
''اگر تم صدقہ و خیرات علانیہ طور پر دو تو یہ بھی درست ہے، لیکن اگر پوشیدہ طور پر حاجت مندوں کو دو تو یہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے۔ اس سے اللہ تمہارے گناہ دور کردے گا اور اللہ کو تمہارے سب کاموں کی خبر ہے۔''

یہ بھی فرمایا کہ مالداروں کے لئے ضروری ہے کہ وہ جب اللہ کی راہ میں مال خرچ کریں اور حاجت مندوں کو دیں تو گھٹیا اور ناقص قسم کا مال دینے کا قصد نہ کریں ، بلکہ اچھی قسم کا مال دیا کریں ، کیونکہ غربا کے حق کی ادائیگی اسی صورت میں بہتر طور پر ہوسکتی ہے :
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاأَنفِقُوا مِن طَيِّبَـٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّآ أَخْرَ‌جْنَا لَكُم مِّنَ ٱلْأَرْ‌ضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُوا ٱلْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِـَٔاخِذِيهِ إِلَّآ أَن تُغْمِضُوا فِيهِ ۚ وَٱعْلَمُوٓا أَنَّ ٱللَّهَ غَنِىٌّ حَمِيدٌ ﴿٢٦٧...سورۃ البقرۃ
''اے ایمان والو! اپنی پاکیزہ کمائی اور زمینی پیداوار میں سے راہ ِ خدا میں خرچ کرو۔ اور گھٹیا یا ناقص چیز دینے کا قصد نہ کرو کہ اگر وہی چیز تمہیں دی جائے تو نہ لو، سواے اس کے کہ آنکھیں بند کرکے لے لو۔ اور جان رکھو کہ اللہ بے نیاز اور تعریف کے لائق ہے۔''

بلکہ فرما دیا کہ تم نیکی کے درجے اور دینداری کے مقام کو حاصل نہیں کرسکتے تاوقتیکہ اپنا پسندیدہ مال میں سے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو:
لَن تَنَالُواٱلْبِرَّ‌ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ...﴿٩٢﴾...سورۃ آل عمران
''تم اسوقت تک نیکی اور بھلائی نہیں پاسکتے جب تک اپنا پسندیدہ مال اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو۔''

یہ بھی فرمایا کہ دولت مندوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ دین اسلام کی ایک اہم گھاٹی (عقبہ) کو عبور کریں اور وہ گھاٹی ہے غلاموں کو آزاد کرنا، رشتہ دار یتیموں اور خاک نشین مسکینوں کو کھانا کھلانا :
فَلَا ٱقْتَحَمَ ٱلْعَقَبَةَ ﴿١١﴾ وَمَآ أَدْرَ‌ىٰكَ مَا ٱلْعَقَبَةُ ﴿١٢﴾ فَكُّ رَ‌قَبَةٍ ﴿١٣﴾ أَوْ إِطْعَـٰمٌ فِى يَوْمٍ ذِى مَسْغَبَةٍ ﴿١٤﴾ يَتِيمًا ذَا مَقْرَ‌بَةٍ ﴿١٥﴾ أَوْ مِسْكِينًا ذَا مَتْرَ‌بَةٍ ﴿١٦...سورہ البلد
''مگر اس نے گھاٹی کو عبور نہ کیا اور تم کیا سمجھے کہ وہ گھاٹی کیا ہے؟ کسی غلام کی گردن چھڑانا یا بھوک کے دن کھانا کھلانا، یتیم رشتہ داروں کو، یا خاک نشین محتاج کو۔''

ارشاد ہوا کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں اخلاص کے ساتھ اپنامال خرچ کرتے ہیں اور ان کا مطمع نظر صرف اللہ کی رضا کا حصول ہوتا ہے، ایسے لوگوں کو اللہ کے ہاں اُن کی ہر نیکی پر کم از کم سات گنا اجر ملے گا :
مَّثَلُ ٱلَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَ‌ٰلَهُمْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِى كُلِّ سُنۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۗ وَٱللَّهُ يُضَـٰعِفُ لِمَن يَشَآءُ ۗ وَٱللَّهُ وَ‌ٰسِعٌ عَلِيمٌ ﴿٢٦١...سورۃ البقرۃ
''جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ، ان کے مال کے ثواب کی مثال یہ ہے کہ جیسے ایک دانہ ہو؛ اس سے سات بالیاں اُگیں اور ہر ایک بالی میں سو سودانے ہوں اور اللہ جس کے مال کے ثواب کو چاہے زیادہ کردیتا ہے۔ وہ بڑی وسعت والا اور علم والا ہے۔''

إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ ٱللَّهِ لَا نُرِ‌يدُ مِنكُمْ جَزَآءً وَلَا شُكُورً‌ا ﴿٩...سورۃ الانسان
''ہم تمہیں اللہ کی رضا کی خاطر کھلا رہے ہیں ، نہ تم سے صلہ مانگتے ہیں اور نہ یہ کہ تم ہمارا شکر اداکرو۔''

یہ بھی فرما دیاکہ جو لوگ ریا کاری کے ساتھ یا کسی پر احسان جتانے کی غرض سے اپنا مال خرچ کرتے ہیں ، وہ کسی اجر و ثواب کے مستحق نہیں ہیں ۔ کیونکہ ریاکاری کا تعلق ایمان سے نہیں ہے بلکہ کفر و منافقت سے ہے :
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَـٰتِكُم بِٱلْمَنِّ وَٱلْأَذَىٰ كَٱلَّذِى يُنفِقُ مَالَهُۥ رِ‌ئَآءَ ٱلنَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ‌ ۖ فَمَثَلُهُۥ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَ‌ابٌ فَأَصَابَهُۥ وَابِلٌ فَتَرَ‌كَهُۥ صَلْدًا ۖ لَّا يَقْدِرُ‌ونَ عَلَىٰ شَىْءٍ مِّمَّا كَسَبُو ا وَٱللَّهُ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلْكَـٰفِرِ‌ينَ ﴿٢٦٤...سورۃ البقرۃ
''اے ایمان والو! اپنے صدقات و خیرات کو برباد نہ کرو کسی پر احسان کرکے اور اُسے تکلف پہنچاکر۔ جیسے کوئی شخص لوگوں کو دکھاوے کے لئے مال خرچ کرتا ہے اور اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتا۔ اس کے مال کی مثال اس چٹان کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہے، اور اس پر زور کا مینہ برس کر اسے صاف کر ڈالے۔ اسی طرح ریا کاروں کا انفاق بھی کچھ حیثیت نہیں رکھتا اور اللہ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔''

یہ بھی ارشاد ہواکہ جو مالدار لوگ یتیموں مسکینوں کا خیال نہیں رکھتے، وہ دولت کے حریص اور پجاری ہیں ، ایسے لوگوں کا دین و ایمان سے کوئی واسطہ نہیں :
كَلَّا ۖ بَل لَّا تُكْرِ‌مُونَ ٱلْيَتِيمَ ﴿١٧﴾ وَلَا تَحَـٰٓضُّونَ عَلَىٰ طَعَامِ ٱلْمِسْكِينِ ﴿١٨﴾ وَتَأْكُلُونَ ٱلتُّرَ‌اثَ أَكْلًا لَّمًّا ﴿١٩﴾ وَتُحِبُّونَ ٱلْمَالَ حُبًّا جَمًّا ﴿٢٠...سورۃ الفجر
''ہرگر نہیں بلکہ تم یتیموں کا خیال نہیں رکھتے اور نہ کسی مسکین کے لیے کسی کوکھاناکھلانے کی ترغیب دیتے ہو اور خود وراثت کا مال اکٹھا کرکے ہڑپ کرجاتے ہو اور مال سے بہت ہی محبت کرتے ہو۔''

سورۂ ماعون میں ایسے شخص کو آخرت کا منکر کہا گیا جو من جملہ اور باتوں کے یتیموں کو دھکے دیتا ہے اور مسکینوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا۔ پھر ریاکاروں کے ساتھ ساتھ ایسے لوگوں کے لئے بھی ہلاکت و بربادی کا انجام بتایا گیا جو دوسروں کو استعمال کی معمولی چیز عاریتہ بھی نہیں دیتے۔

ان قرآنی تعلیمات و احکامات کی روشنی میں یہ امر بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اغنیاء کے مال میں غریبوں کا حق رکھا ہے جسے بہرصورت ادا ہونا چاہئے۔

متعلقہ احادیث
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور سنت سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اغنیا کے مال میں غریبوں اور ناداروں کا حصہ ہوتا ہے۔ چند احادیث ملاحظہ ہوں :
قال رسول اﷲ!:(إن اﷲ عزوجل یقول یوم القیامة: یابن آدم! أستطعمتُك فلم تطعمني قال: یا ربّ وکیف أطعمك؟ وأنت ربّ العٰلمین؟ قال: أما علمت أنه استطعمك عبدي فلان فلم تطعمه أما علمت أنك لو أطعمته لوجدت ذلك عندي۔یا ابن آدم! أستسقیتک فلم تسقني قال: یا رب کیف أسقیك وأنت رب العٰلمین؟ قال استسقاك عبدي فلان فلم تسقه أما إنك لوأسقیته وجدت ذلك عندي) 1
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ عزوجل قیامت کے دن کہے گا: اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا تھا، تو نے نہیں کھلایا۔ تو وہ کہے گا کہ اے میرے ربّ! میں تجھے کیسے کھلاتا جب کہ تو سب لوگوں کی پرورش کرنے والا ہے۔ اللہ کہے گا: کیا تجھے خبر نہیں کہ تجھ سے میرے فلاں بندے نے کھانا مانگا تھا، لیکن تو نے اُسے نہیں کھلایا؟کیا تجھے خبرنہیں کہ اگرتو اسے کھلاتا تو اپنے کھلائے ہوئے کھانے کو میرے ہاں پاتا؟ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا مگر تو نے مجھے نہیں پلایا، تو وہ کہے گا: اے میرے ربّ! میں تجھے کیسے پلاتا جبکہ تو خود ربّ العٰلمین ہے۔ اللہ کہے گا: میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا، لیکن تو نے اُسے پانی نہیں دیا، اگر تو اسے پانی پلاتا تو وہ پانی میرے ہاں پاتا۔''

یہ حدیث ِقدسی اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان تعلق کو ظاہر کرتی ہے۔ خاص طور پر اللہ کو اپنے غریب اور نادار بندے کتنے عزیز ہیں کہ ان کے حق کو اللہ نے اپنا حق قرار دیا ہے اور قیامت کے دن اس کی باز پُرس رکھی ہے۔ اس لئے بھوکے کو کھانا کھلانا اور پیاسے کو پانی پلانا بڑے اَجرو ثواب کا کام ہے، اس سے قربِ الٰہی حاصل ہوتاہے۔ اس طرح ہر محروم اور نادار کے لئے خوشحال لوگوں کے مال میں حصہ رکھ دیا گیا ہے :
أَرَ‌ءَيْتَ ٱلَّذِى يُكَذِّبُ بِٱلدِّينِ ﴿١﴾ فَذَ‌ٰلِكَ ٱلَّذِى يَدُعُّ ٱلْيَتِيمَ ﴿٢﴾ وَلَا يَحُضُّ عَلَىٰ طَعَامِ ٱلْمِسْكِينِ ﴿٣﴾ فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ ﴿٤﴾ ٱلَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ ﴿٥﴾ ٱلَّذِينَ هُمْ يُرَ‌آءُونَ ﴿٦﴾ وَيَمْنَعُونَ ٱلْمَاعُونَ ﴿٧...سورۃ الماعون
''بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جو آخرت کا انکار کرتا ہے۔ وہ یتیم کو دھکے دیتا ہے، کسی مسکین کو کھانا کھلانے کے لئے لوگوں کو ترغیب نہیں دیتا۔ تو ایسے نمازیوں کے لئے ہلاکت ہے جو نماز سے غافل رہتے ہیں جو ریاکاری کرتے ہیں اور کسی کوبرتنے کی معمولی چیز عاریتہ بھی نہیں دیتے۔''

خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ضمناً عام مسلمانوں کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ کسی یتیم کو نہ ڈانٹیں اور کسی سائل کو ہرگز نہ جھڑکیں بلکہ بھلے طریقے سے برتاؤ کریں اور رخصت کردیں :
فَأَمَّا ٱلْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرْ‌ ﴿٩﴾ وَأَمَّا ٱلسَّآئِلَ فَلَا تَنْهَرْ‌ ﴿١٠...سورۃ الضحی
''تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی یتیم پر ستم نہ کریں اور کسی مانگنے والے کو ہرگز نہ جھڑکیں ۔''

ایک حدیث میں ہے کہ آپ ؐنے فرمایا:
(أفضل الصدقة أن تشبع کبدًا جائعًا)2
''بہترین صدقہ یہ ہے کہ تو کسی بھوکے کو پیٹ بھر کھلائے۔''

گویا بھوکے کو کھانا کھلانا بہترین صدقہ ہے۔ یہ حدیث بھی ظاہر کرتی ہے کہ اغنیا کے مال میں ناداروں کا حق ہے۔ پھر وہ نادار اور محرومِ معیشت لوگ جو کسی کے سامنے دامنِ سوال نہیں پھیلاتے مگر حاجت مند ہوتے ہیں ، ان کے بارے میں دولت مندوں کو تاکید کی کہ اُن کی ضروریات کاخیال رکھیں :
قال النبي!: (لیس المسکین الذي یطوف علی الناس تردہ اللقمة واللقمتان والتمرة والتمرتان ولکن المسکین الذي لا یجد غني یغنیه ولا یفطن له فیتصدق علیه ولا یقوم فیسأل الناس) 3
''نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسکین وہ نہیں ہے جو لوگوں کے دروازے کا چکر لگاتا ہے اورلقمہ دو لقمے اور کھجور دو کھجور لے کرلوٹتا ہے ، مسکین وہ ہے جو اتنا مال نہیں رکھتا کہ اپنی ضروریات پوری کرے اور اس کی غربت کولوگ سمجھ نہیں پاتے کہ اسے صدقہ دیں اور نہ ہی وہ لوگوں کے سامنے کھڑے ہوکر ہاتھ پھیلاتا ہے۔''

قرآن مجید میں بھی ایسے 'سفید پوش' کی ضروریات پر اغنیا کو توجہ دلائی گئی ہے۔ سورة البقرة کی آیت 273 جس کا حوالہ پہلے گزرچکا ہے، میں ایسے ہی لوگوں پرصدقہ و خیرات کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اور اس حدیث میں بھی ان لوگوں کا خاص خیال رکھا گیا ہے، کیونکہ عام مانگنے والے تو دوسروں سے مانگ کر اپنی ضروریات پوری کرلیتے ہیں ، لیکن نہ مانگنے والے محروم لوگ زیادہ حاجت مند ہوتے ہیں ،اس لئے قرآن و حدیث میں ان کے بارے میں خصوصی حکم دیا گیا ہے۔

ایک حدیث میں سائل و نادار کوخالی ہاتھ لوٹانے سے منع کیا گیا ہے۔ جو کچھ میسر ہو سائل کو دیاجائے خواہ وہ معمولی چیز ہی کیوں نہ ہو ، فرمانِ نبویؐ ہے:
(ردوا السائل ولو بظلف محرق) 4
''سائل کو کچھ دے کر ہی واپس کرو خواہ جلا ہوا کُھرہی کیوں نہ ہو۔''

اسلام میں جہاد بہت بڑے اجروثواب کا کام ہے، لیکن جو شخص بیواؤں اور مسکینوں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے دوڑ دھوپ کرتا ہے، اُسے بھی مجاہد کہا گیا ہے اور اس کی اس تگ و تاز کو جہاد سے تعبیر کیاگیا ہے۔ایک حدیث نبویؐ میں ہے کہ
(الساعي علی الأرملة والمسکین کالمجاھد في سبیل اﷲ۔۔۔ کالقائم الذي لا یفتر وکالصائم الذي لا یفطر)5
''بیواؤں اور مسکینوں کے لئے دوڑ دھوپ کرنے والا شخص اس مجاہد کی طرح ہے جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتاہے ۔ ۔ ۔ اور اس شخص کی طرح ہے جو رات بھر اللہ کے حضور کھڑا رہتا ہے اور تھکتا نہیں اور اس روزے دار کی طرح ہے جو افطار نہیں کرتا یعنی لگاتار روزے رکھتا ہے۔''

اس حدیث میں اس شخص کو جو مسکینوں اور بیواؤں کی حاجات پوری کرتا ہے، مجاہد کا درجہ دیاگیا ہے اوراس کے اجر کو قیام اللیل کرنے والے اور صائم الدہر شخص کے اجر و ثواب کے برابرقرار دیا۔

ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اغنیا کے مال میں غریبوں کے حق پر طویل گفتگو فرمائی ہے۔ اس حدیث کے راوی حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ
بینما نحن في سفر مع النبی إذ جاء ہ رجل علی راحلة له فجعل یصرف بصرہ یمینا وشمالا فقال رسول اﷲ ! (من کان معه فَضْلُ ظَھْر فَلْیَعُدْ به علی من لاظھر له ومن کان له فضل من زاد فلیَعُدْ به علی من لا زاد له) قال فذکر من أصناف المال حتی رأینا أنه لاحق لأحد منا في الفضل۔
'' ایک دفعہ جب ہم نبی کے ساتھ سفر میں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی اونٹنی پر سوار ہوکر آیا، اس نے دائیں بائیں مڑ مڑ کر دیکھناشروع کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کے پاس کوئی زائد سواری ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اپنی سواری اس شخص کو دے دے جس کے پاس سواری نہیں ہے اور جس شخص کے پاس زائد کھانا ہو تو اسے ان لوگوں کو دے دینا چاہئے جن کے پاس کھانانہیں ہے۔ راوی کا بیان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کی بہت سی قسمیں گنوائیں یہاں تک کہ ہم سمجھے کہ ہم میں سے کسی کازائد از ضرورت مال میں کوئی حق نہیں ہے۔''6

اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ زائد از ضرورت چیزیں اُس رفیقِ سفر کو دے دینی چاہئیں جو ان سے محروم ہے اور ضرورت مند ہے۔ چنانچہ غزوۂ تبوک کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کے مطابق یوں عمل فرمایا کہ سواروں کو حکم دیاکہ وہ پیدل لوگوں کو بھی باری باری اپنی سواری پر سوار کرائیں اور اسی طرح جن کے پاس زادِ راہ نہیں تھا، اُن کی خاطر سارا زادِ راہ جمع فرمایا تھا اور پھر ہر ایک میں برابر برابرتقسیم فرمایادیا۔

ایک اور حدیث میں ہے جو حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(تکون إبل للشیاطین وبیوت للشیاطین فأما إبل الشیاطین فقد رأیتھا یخرج أحدکم بجنیبات معه قد أسمَنَھا فلا یعلو بعیرًا منھا ویَمرُّ بأخیه قد انقطع به فلا یحمله وأما بیوت الشیاطین فلم أرھا) 7
''کچھ اونٹ شیطانوں کا حصہ ہوتے ہیں ۔ کچھ گھر شیطانوں کا حصہ ہوتے ہیں ۔ شیطانوں کے اونٹ تو میں نے دیکھے ہیں کہ تم میں سے کوئی اپنے ساتھ بہت سی اونٹنیاں لے کرنکلتا ہے اور اُنہیں خوب موٹا تازہ کر رکھا ہوتا ہے اور ان میں سے کسی پرسواری نہیں کرتا اور وہ اپنے بھائی کے پاس سے گزرتا ہے جو بغیر سواری کے ہے، تو اسے اپنی اونٹنیوں پر سوارنہیں کرتا اور رہے شیطانوں کے گھر تو اُنہیں میں نے نہیں دیکھا۔''

اس حدیث میں دو اہم باتیں فرمائی گئی ہیں ۔ ایک یہ کہ جو لوگ زائد سواریاں رکھتے ہیں مگر ضرورت مندوں اور پیدل لوگوں کو ان پر سوار ہونے کا موقع نہیں دیتے تو ان کی یہ سواریاں 'شیطان کی سواریاں ' ہیں ۔

دوسرے یہ فرمایا کہ وہ مکانات جنہیں لوگ بلاضرورت محض دولت کی نمائش کے لئے بناتے ہیں اور اُن میں غریبوں کو رہنے کا حق نہیں دیتے تو وہ'شیطانوں کے گھر'ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس طرح کے نمائشی مکانات نہیں تھے، لیکن آج ہمارے زمانے میں ایسے بہت سے ہیں ۔ ایک ہی شخص بلاکسی حقیقی ضرورت کے کئی شہروں میں اپنی کوٹھیاں اور مکانات بنا لیتا ہے اور نہ خود ان میں رہتا ہے، نہ کسی اور کو رہنے دیتا ہے۔

حضرت ابو موسیؓ سے ایک حدیث مروی ہے کہ
(أطعمو الجائع وعودوا المریض و وفکوا العاني)8
''بھوکے کو کھانا کھلاؤ ،بیمار کی عیادت کرو اور قیدی کی رہائی کا بندوبست کرو۔''

اس حدیث میں تین اُمور بیان فرمائے گئے ہیں :بھوکے کو کھاناکھلانا،بیمار کی عیادت کرنا، اور غلاموں کو آزادکرنا۔ بھوکے کو کھاناکھلانے کا حکم دیا گیا تو اس سے معلوم ہوا کہ صاحب ثروت لوگوں کے مال میں ناداروں اور بے کسوں کا حصہ رکھ دیا گیا ہے اور یہ حصہ پہنچانے کا اہتمام ضروری ہے۔

ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ
(والذي نفسی بیدہ لا یؤمن عبد حتی یحب لأخیه ما یحب لنفسه)9
''قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ کوئی شخص ایمان والا نہیں ہوسکتا جب تک اپنے بھائی کے لئے وہی کچھ پسند نہ کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے۔''

گویا ایمان کا معیار یہ قرار پایاکہ اپنے بھائی کے لئے وہی کچھ پسند کرنا جو آدمی اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ اس سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ جو مکان، لباس اور غذا ہم اپنے لئے پسند کرتے ہیں ، اُسی طرح کا مکان، لباس اور غذا ہمیں دوسروں کے لئے بھی پسند کرنا چاہئے اور اگر وہ مفلوک الحال ہیں تو یہ چیزیں ان کو مہیا کی جانی چاہیے۔

ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ ایسے شخص پر رحم نہیں کرتا جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا:
(لا یرحم اﷲ من لایرحم الناس )10
''اللہ اُس پر رحم نہیں کرتا جو دوسرے لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔''

اس حدیث کو نقل کرکے علامہ ابن حزم نے المُحلیٰ میں لکھا ہے کہ
ومن کان علی فضلة ورأی المسلم أخاہ جائعا عریان ضائعا فلم یغثه فما رحمه بلا شك11
''جس شخص کے پاس زائد از ضرورت چیز ہو اور وہ اپنے مسلمان بھائی کو بھوکا ننگا دیکھے مگر اُسے کچھ نہ دے تو اس نے بلا شبہ اس پرکوئی رحم نہیں کیا۔''

اصحابِ صفّہ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو عام ہدایت دے رکھی تھی کہ ان کی ضروریات کا خاص خیال رکھیں ۔ اس سلسلے میں آپؐ کا یہ ارشاد بہت اہم ہے جسے حضرت ابوبکرؓ نے روایت کیا ہے کہ
(من کان عندہ طعام اثنین فلیذھب بثالث،ومن کان عندہ طعام أربعة فلیذھب بخامس أو سادس)12
''جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو اُسے چاہئے کہ وہ تیسرے کو بھی لے جائے اور جس کے پاس چار آدمیوں کا کھانا ہو اُسے چاہئے کہ پانچویں یا چھٹے بھوکے فرد کو بھی اپنے ہاں لے جائے۔''

اور یہ بھی احادیث و تاریخ سے ثابت ہے کہ اہل مدینہ جن میں انصار اور مہاجرین سب شامل تھے نے اصحابِ صفّہ کی تمام بنیادی ضروریات پوری کرنے کا اہتمام کررکھا تھا، کیونکہ اُن کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات تھے۔

اسی سلسلے کی ایک اور حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عام مسلمانوں کو بھی ہدایت فرمائی ہے کہ ہر شخص اپنے کھانے میں دوسرے کو بھی شریک کرلے۔ یہ گویا خوشحال لوگوں کے مال میں ناداروں کا حق ہوا۔وہ حدیث یہ ہے کہ
(طعام الواحد یکفي الإثنین)13
''ایک شخص کاکھانا دو کے لئے کافی ہے۔''

گویاہر کھانا رکھنے والے کے کھانے میں بھوکے شخص کا حصہ ہے ۔جس اسلام نے غریبوں اور ناداروں کا اس حد تک خیال رکھا ہے، افسوس کہ بعض کم سواد اُسے بھی سرمایہ داروں کا دین کہتے ہوئے نہیں شرماتے۔

ایک اور حدیث میں ہے کہ مؤمن وہ نہیں جو خود تو پیٹ بھر کر کھائے اورسو جائے اور اس کا ہمسایہ بھوکا رہے :
(لیس المؤمن بالذي یشبع وجارہ جائع إلی جنبه)14
''وہ شخص مؤمن نہیں ہے جو خود پیٹ بھر کر کھالے اور اس کا ہمسایہ اس کے پہلو میں بھوکا ہو۔''

غریبوں اور ناداروں کی ضروریات پوری کرتے وقت امیروں کو ریاکار اور نمائش سے روکا گیاہے اور ہدایت کی گئی کہ اس حال میں خرچ کرو کہ بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیاخرچ کیا ہے۔صحیح بخاری میں ہے کہ
(حتی لا تعلم شماله ما تنفق یمینه)15
''یہاں تک کہ بائیں ہاتھ کو معلوم نہ ہو کہ دائیں نے کیا خرچ کیاہے۔''

اَقوال صحابہ کرام ؓ
اس سلسلے میں بعض جلیل القدر صحابہ کرام ؓ کے اقوال بھی ملتے ہیں ۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں :
إن اﷲ تعالی فرض علی الأغنیاء في أموالھم بقدر ما یکفی فقراء ھم فإن جاعوا أو عروا وجھدوا فبمنع الأغنیاء وحق علی اﷲ تعالیٰ أن یحاسبھم یوم القیامة ویعذبهم علیه16
''اللہ تعالیٰ نے دولت مندوں کے مال میں ناداروں کے لئے ایک حصہ لازمی طور پررکھا ہے۔ لہٰذا غریبوں کو حق حاصل ہے کہ اپنی بھوک اور برہنگی کو دور کرنے کے لئے دولت مندوں سے بقدرِ ضرورت مال حاصل کرکے رہیں ۔ایسے سرمایہ دار جو دوسروں کی ضروریات کا خیال نہ رکھیں ، اللہ تعالیٰ کاحق ہے کہ اُن سے قیامت کے روز باز پُرس کرے اور اُنہیں عذاب دے۔''

اس سے معلوم ہوا کہ غریب اور نادار لوگ دولت مندوں کے مال میں سے اپنی ضروریات کے لئے مال حاصل کرسکتے ہیں ۔ اگر دولت مند رضا مندی سے اُن کا حق دیں تو بہتر ورنہ مسلم حکومت اُن سے زبردستی بھی لے کر دے سکتی ہے۔


حوالہ جات
1. صحیح مسلم :2564
2. شعب الایمان:3367
3. بخاری:1479 و مسلم:1039
4. نسائی:2566
5. بخاری:6007 و مسلم:2982
6. صحیح مسلم:1728
7. ابوداؤد:2568
8. صحیح بخاری :5649
9. بخاری:14 و مسلم:45
10. بخاری:7376 و مسلم:2319
11. ج4؍ص175
12. مسنداحمد:1؍198
13. صحیح مسلم:2059
14. مسندابو یعلی :2638
15. رقم:660
16. محلّی از ابن حزم:6؍158