اسلام اور ’غامدیت‘… ایک تقابل

ٹی وی کے دانشورجناب جاوید احمد غامدی صاحب (بی اے آنرز، فلسفہ) کے نظریات دین اسلام کے مسلمہ، متفقہ اور اجماعی عقائد و اَعمال سے کس قدر مختلف ہیں اور اُن کی راہ اُمت ِمسلمہ اور علماے اسلام سے کتنی الگ اور جداگانہ ہے، اسے اچھی طرح سمجھنے کے لئے ذیل میں اُن کی تحریروں پر مبنی ایک تقابلی جائزہ پیش کیا جاتا ہے جس کے مطالعے سے آپ خود یہ فیصلہ فرما سکتے ہیں کہ علماے اسلام اور غامدی صاحب میں سے کون حق پر ہوسکتا ہے؟
جائزہ میں سب سے پہلے قرآنِ کریم، پھر سنت ِنبویؐ اور مصادرِ دین سے متعلقہ دیگر اُمور وغیرہ کی ترتیب پیش نظر رکھی گئی ہے :

جائزہ قرآنِ کریم
1 قرآن کی صرف ایک ہی قراء ت درست ہے۔ باقی سب قراء تیں عجم کا فتنہ ہیں ۔
1 قرآن مجید کی سات یا دس (سبعہ یا عشرہ) قراء تیں متواتر اور صحیح ہیں ۔

2 قرآن کا ایک نام 'میزان' بھی ہے۔
2 'میزان' قرآن کے ناموں میں سے کوئی نام نہیں ہے۔

3 قرآن کی متشابہ آیات کا بھی ایک واضح اور قطعی مفہوم سمجھا جاسکتا ہے۔
3 قرآن کی متشابہ آیات کا واضح اور قطعی تفصیلی مفہوم متعین نہیں کیا جاسکتا۔

4 سورۂ نصر مکی ہے۔
4 سورۂ نصر مدنی ہے۔

5 قرآن میں 'اصحاب الاخدود' سے مراد دورِنبویؐ کے قریش کے فراعنہ ہیں ۔
5 اصحاب الاخدود کاواقعہ بعثت ِنبویؐ سے بہت پہلے زمانے کا ہے۔

6 سورۂ لہب میں ابولہب سے مراد قریش کے عام سردار ہیں ۔
6 ابولہب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کافر چچا مراد ہے۔

7 اصحاب الفیل کو پرندوں نے ہلاک نہیں کیا تھا بلکہ وہ قریش کے پتھراؤ اور آندھی سے ہلاک ہوئے تھے۔ پرندے صرف ان کی لاشوں کو کھانے کے لئے آئے تھے
7 اللہ تعالیٰ نے اصحاب الفیل پر ایسے پرندے بھیجے جنہوں نے اُن کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا تھا۔

8 سنت قرآن سے مقدم ہے۔
8 قرآن سنت سے مقدم ہے۔

9 سنت صرف افعال کا نام ہے۔ اس کی ابتدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوتی ہے۔
9 سنت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور تقریرات (خاموش تائیدیں ) سب شامل ہیں اور وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع ہوتی ہے۔

10 سنت صرف ستائیس اعمال کا نام ہے۔
10 سنتیں سینکڑوں کی تعداد میں ہیں ۔

11 ثبوت کے اعتبار سے سنت اور قرآن میں کوئی فرق نہیں ۔ان دونوں کا ثبوت اجماع اور عملی تواتر سے ہوتا ہے۔
11:۔ ثبوت کے اعتبار سے سنت اور قرآن میں واضح فرق ہے۔ سنت کے ثبوت کے لئے تواتر، اجماع شرط نہیں ۔

12 حدیث ِرسولؐ سے کوئی اسلامی عقیدہ یا عمل ثابت نہیں ہوتا۔
12 حدیث ِرسولؐ سے بھی اسلامی عقائد اور اعمال ثابت ہوتے ہیں ۔

13 حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث کی حفاظت اور تبلیغ و اشاعت کے لئے کوئی بھی اہتمام نہیں کیا۔
13 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث کی حفاظت اور تبلیغ و اشاعت کیلئے بہت اہتمام کیا تھا۔

14 ابن شہاب زہری کی کوئی روایت بھی قبول نہیں کی جاسکتی،وہ ناقابل اعتبار راوی ہیں ۔
14 امام ابن شہاب زہریؒ روایت حدیث میں ثقہ اور معتبر راوی ہیں اور ان کی روایات قابل قبول ہیں ۔

15 دین کے مصادر قرآن کے علاوہ دین فطرت کے حقائق، سنت ِابراہیمی اور قدیم صحائف بھی ہیں ۔
15 دین و شریعت کے مصادر و مآخذ قرآن، سنت، اجماع اور اجتہاد ہیں ۔

16 معروف اور منکر کا تعین انسانی فطرت کرتی ہے۔
16 معروف و منکر کا اصل تعین وحی الٰہی سے ہوتا ہے۔

17 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی شخص کو کافر قرار نہیں دیا جاسکتا۔
17 جو شخص دین کے بنیادی اُمور یعنی ضروریاتِ دین میں سے کسی ایک کا بھی انکار کرے اُسے کافر قرار دیا جاسکتا ہے۔

18 عورتیں بھی باجماعت نماز میں امام کی غلطی پر بلند آواز سے 'سبحان اللہ' کہہ سکتی ہیں ۔
18 امام کی غلطی پر عورتوں کے لئے بلند آواز سے 'سبحان اللہ' کہناجائز نہیں ۔

19 زکوٰۃ کا نصاب منصوص اور مقرر نہیں ہے۔
19 زکوٰۃ کا نصاب منصوص اور مقرر شدہ ہے۔

20 ریاست کسی بھی چیز کو زکوٰۃ سے مستثنیٰ کرسکتی ہے۔
20 اسلامی ریاست کسی چیز یا شخص کوزکوٰۃ سے مستثنیٰ نہیں کرسکتی۔

21 بنوہاشم کو زکوٰۃ دینا جائز ہے۔
21 بنوہاشم کو زکوٰۃ دینی جائز نہیں ۔

22 اسلام میں موت کی سزا صرف دو جرائم (قتل نفس، فساد فی الارض) پر دی جاسکتی ہے۔
22 اسلامی شریعت میں موت کی سزا بہت سے جرائم پر دی جاسکتی ہے۔

23 دیت کا قانون وقتی اور عارضی تھا۔
23 دیت کا حکم اور قانون ہمیشہ کیلئے ہے۔

24 قتل خطا میں دیت کی مقدار تبدیل ہوسکتی ہے۔
24 قتل خطا میں دیت کی مقدار تبدیلی نہیں ہوسکتی۔

25 عورت اور مرد کی دیت برابر ہے۔
25 عورت کی دیت، مرد کی دیت سے آدھی ہے۔

26 اب مرتد کی سزاے قتل باقی نہیں ہے۔
26 اسلام میں مرتد کے لئے قتل کی سزا ہمیشہ کے لئے ہے۔

27 زانی کنوارا ہو یا شادی شدہ دونوں کی سزا صرف سو کوڑے ہے۔
27 شادی شدہ زانی کی سزا از روئے سنت سنگساری ہے۔

28 چور کا دایاں ہاتھ کاٹنے کی بنیاد قرآنِ کریم میں ہے۔
28 چور کا دایاں ہاتھ کاٹنا صرف سنت سے ثابت ہے۔

29 شراب نوشی پر کوئی شرعی سزانہیں ہے۔
29 شراب نوشی کی شرعی سزا ہے جو اجماع کی رو سے 80 کوڑے مقرر ہے۔

30 عورت کی گواہی حدود کے جرائم میں بھی معتبر ہے۔
30 حدود کے جرائم میں عورت کی شہادت مرد کی طرح نہیں بلکہ قرائن میں شامل ہے۔

31 صرف عہد نبویؐ کے عرب مشرکین اور یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے وارث نہیں ہوسکتے۔
31 کسی زمانہ کا کوئی کافر کسی مسلمان کا کبھی وارث نہیں ہوسکتا۔

32 اگر میت کی اولاد میں صرف بیٹیاں وارث ہوں تو اُن کو والدین یا بیوی شوہر کے حصوں سے بچے ہوئے ترکے کا دو تہائی حصہ ملے گا
32 میت کی اولاد میں صرف بیٹیاں ہی ہوں تو ان کو کل ترکے کا دو تہائی حصہ دیا جائے گا۔

33 سور کی کھال اور چربی وغیرہ کی تجارت اور ان کا استعمال ممنوع نہیں ۔
33 سور نجس العین ہے لہٰذا اس کی کھال اور اجزاے بدن کا استعمال اور تجارت جمہور کے نزدیک حرام ہے۔

34 عورت کیلئے دو پٹہ پہننا شرعی حکم نہیں ۔
34 عورت کیلئے دوپٹہ اور اوڑھنی پہننے کا حکم قرآن کی سورۃ النور:۳۱ سے ثابت ہے۔

35 کھانے کی صرف چار چیزیں ہی حرام ہیں : خون، مردار، سور کا گوشت اور غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ۔
35 ان کے علاوہ کھانے کی بہت سی اور چیزیں بھی حرام ہیں جیسے کتے،درندوں ،شکاری پرندوں اور پالتو گدھے کا گوشت وغیرہ

36 کئی انبیا قتل ہوئے ہیں مگر کوئی رسول کبھی قتل نہیں ہوا۔
36 از روئے قرآن بہت سے نبیوں اور رسولوں دونوں کو قتل کیاگیا۔

37 عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں ۔(غامدی اور قادیانی وغیرہ)
37 حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ اُٹھا لئے گئے۔ وہ قیامت کے قریب دوبارہ دنیا میں آئیں گے اور دجال کو قتل کریں گے۔

38 یاجوج ماجوج اور دجال سے مراد مغربی اقوام ہیں ۔
38 یاجوج ماجوج اور دجال قرب ِقیامت کی دو الگ الگ نشانیاں ہیں ۔ احادیث کی رُو سے دجال ایک یہودی شخص ہوگا جو دائیں آنکھ سے کانا ہوگا۔

39 جہاد و قتال کے بارے میں کوئی شرعی حکم نہیں ہے۔
39 جہاد و قتال ایک شرعی فریضہ ہے۔ (i)

40 کافروں کے خلاف جہاد کرنے کا حکم اب باقی نہیں رہا اور اب مفتوح کافروں سے جزیہ نہیں لیا جاسکتا۔
40 کفار کے خلاف جہاد کا حکم ہمیشہ کے لئے ہے اور مفتوح کفار (ذمیوں ) سے جزیہ (ٹیکس) لیا جاسکتا ہے۔ (ii)

1 (الف) "قرآن صرف وہی ہے جو مصحف میں ثبت ہے اور جسے مغرب [مراکش،الجزائر، لیبیا،تیونس،سوڈان وغیرہ]کے چند علاقوں کو چھوڑ کر پوری دنیا میں اُمت ِمسلمہ کی عظیم اکثریت اس وقت تلاوت کررہی ہے۔یہ تلاوت جس قرا ء ت کے مطابق کی جاتی ہے، اس کے سوا کوئی دوسری قرا ت نہ قرآن ہے اور نہ اسے قرآن کی حیثیت سے پیش کیا جاسکتا ہے۔" 1
(ب) "یہ بالکل قطعی ہے کہ قرآن کی ایک ہی قراء ت ہے۔اس کے علاوہ سب قراء تیں فتنۂ عجم کے باقیات ہیں ۔"2

2 (الف) "قرآن میزان ہے۔ "" 3
(ب) "(اللَّـهُ الَّذِي أَنزَلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَالْمِيزَانَ...﴿١٧﴾...سورۃ الشوری) ""اللہ وہی ہے جس نے حق کے ساتھ کتاب اُتاری یعنی میزان نازل کی ہے۔"" اس آیت میں والمیزان سے پہلے "و" تفسیر کیلئے ہے۔ اسلئے المیزان درحقیقت یہاں "الکتاب" ہی کابیان ہے۔ "4

3"یہ بات ہی صحیح نہیں ہے کہ محکم اور متشابہ کو ہم پورے یقین کے ساتھ ایک دوسرے سے ممیز نہیں کرسکتے یامتشابہات کامفہوم سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ لوگوں کویہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ متشابہات کامفہوم سمجھنا ممکن نہیں ہے۔" 5


4 "سورئہ کافرون کے بعد اور لہب سے پہلے اس سورة ]النصر[ کے مقام سے واضح ہے کہ سورۂ کوثر کی طرح یہ بھی، اُمّ القریٰ مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مرحلہ ہجرت وبراء ت میں آپ کے لئے ایک عظیم بشارت کی حیثیت سے نازل ہوئی ہے۔" 6

5 "یہ (قُتِلَ أَصْحَابُ الْأُخْدُودِ ﴿٤﴾ النَّارِ‌ ذَاتِ الْوَقُودِ ﴿٥...سورۃ البروج) قریش کے اُن فراعنہ کو جہنم کی وعید ہے جو مسلمانوں کو ایمان سے پھیرنے کے لئے ظلم و ستم کا بازار گرم کئے ہوئے تھے۔ اُنہیں بتایا گیا ہے کہ وہ اگر اپنی اس روش سے باز نہ آئے تو دوزخ کی اس گھاٹی میں پھینک دیئے جائیں گے جو ایندھن سے بھری ہوئی ہے۔" 7

6 "(تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ ﴿١...سورۃ المسد)" ابولہب کے بازو ٹوٹ گئے اور وہ خود بھی ہلاک ہوا""(تفسیر) ""بازو ٹوٹ گئے"" یعنی اُس کے اعوان و انصار ہلاک ہوئے اور اس کی سیاسی قوت ختم ہوگئی۔" 8

7 "اللہ تعالیٰ نے ساف و حاصب کے طوفان سے اُنہیں (اصحاب الفیل کو) اس طرح پامال کیا کہ کوئی اُن کی لاشیں اُٹھانے والا نہ رہا۔ وہ میدان میں پڑی تھیں اور گوشت خور پرندے اُنہیں نوچنے اور کھانے کے لئے، اُن پر جھپٹ رہے تھے. . . آیت کا مدعا یہ ہے کہ تمہاری (قریش کی) مدافعت اگرچہ ایسی کمزور تھی کہ تم پہاڑوں میں چھپے ہوئے، اُنہیں کنکر پتھر مار رہے تھے، لیکن جب تم نے حوصلہ کیا اور جو کچھ تم کرسکتے تھے، کرڈالا، تو اللہ نے اپنی سنت کے مطابق تمہاری مدد کی اور ساف و حاصب کا طوفان بھیج کر اپنی ایسی شان دکھائی کہ اُنہیں کھایا ہوا بھوسا بنا دیا۔" 9

8 "سنت قرآن کے بعد نہیں بلکہ قرآن سے مقدم ہے۔ 10

9 (الف) "سنت کا تعلق تمام تر عملی زندگی سے ہے یعنی وہ چیزیں جو کرنے کی ہیں ۔ علمی نوعیت کی کوئی چیز بھی سنت نہیں ہے، اس کا دائرہ کرنے کے کام ہیں ۔" 11
(ب) "سنت سے ہماری مراد دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تجدید و اصلاح کے بعد اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔" 12

10 اس [سنت] کے ذریعے سے جو دین ہمیں ملا ہے، وہ یہ ہے:

  1. اللہ کا نام لے کر اور دائیں ہاتھ سے کھانا پینا
  2. ملاقات کے موقع پر "السلام علیکم" اور اس کا جواب
  3. چھینک آنے پر "الحمدللہ" اور اس کے جواب میں "یرحمك اللہ"
  4. نومولود کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت
  5. مونچھیں پست رکھنا
  6. زیرناف کے بال مونڈنا
  7. بغل کے بال صاف کرنا
  8. لڑکوں کا ختنہ کرنا
  9. بڑھے ہوئے ناخن کاٹنا
  10. ناک، منہ اور دانتوں کی صفائی
  11. استنجا
  12. حیض و نفاس میں زن وشو کے تعلق سے اجتناب
  13. حیض و نفاس کے بعد غسل
  14. غسل جنابت
  15. میت کا غسل
  16. تجہیز و تکفین
  17. تدفین
  18. عیدالفطر
  19. عیدالاضحی
  20. اللہ کا نام لے کر جانوروں کا تذکیہ
  21. نکاح وطلاق اور اس کے متعلقات
  22. زکوٰة اور اس کے متعلقات
  23. نماز اور اس کے متعلقات
  24. روزہ اور صدقہ فطر
  25. اعتکاف
  26. قربانی
  27. حج و عمرہ اور ان کے متعلقات

سنت یہی ہے اور اس کے بارے میں یہ بالکل قطعی ہے کہ ثبوت کے اعتبار سے اس میں اور قرآن مجید میں کوئی فرق نہیں ہے۔" 13

11"سنت یہی ہے اور اس کے بارے میں یہ بالکل قطعی ہے کہ ثبوت کے اعتبار سے اس میں اور قرآن میں کوئی فرق نہیں ہے۔ وہ جس طرح صحابہ کے اجماع اور قولی تواتر سے ملا ہے، یہ اسی طرح ان کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے اور قرآن ہی کی طرح ہر دور میں اُمت کے اجماع سے ثابت قرا رپائی ہے۔ " 14

12"اس]حدیث[ سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔" 15

13"نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کی روایتیں جو زیادہ تر اخبارِ آحاد کے طریقے پر نقل ہوئی ہیں اور جنہیں اصطلاح میں حدیث کہا جاتاہے۔ ان کے بارے میں یہ دو باتیں ایسی واضح ہیں کہ کوئی صاحب ِعلم اُنہیں ماننے سے انکار نہیں کرسکتا۔ ایک یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی حفاظت اور تبلیغ و اشاعت کے لئے کبھی کوئی اہتمام نہیں کیا۔ دوسری یہ کہ ان سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ کبھی علم یقین کے درجے تک نہیں پہنچتا۔" 16

14" ان [امام ابن شہاب زہری] کی کوئی روایت بھی، بالخصوص اس طرح کے اہم معاملات میں قابل قبول نہیں ہوسکتی۔" 17

15 "قرآن کی دعوت اس کے پیش نظر جن مقدمات سے شروع ہوتی ہے، وہ یہ ہیں :

  1. دین فطرت کے حقائق
  2. سنت ِابراہیمی،cنبیوں کے صحائف 18


16"معروف و منکر وہ باتیں (ہیں ) جو انسانی فطرت میں خیر کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہیں اور وہ جن سے فطرت ابا کرتی اور اُنہیں برا سمجھتی ہے۔ انسان ابتدا ہی سے معروف و منکر ، دونوں کو پورے شعور کے ساتھ بالکل الگ الگ پہچانتا ہے۔ 19

17"کسی کو کافر قرار دینا ایک قانونی معاملہ ہے۔پیغمبر اپنے الہامی علم کی بنیاد پر کسی گروہ کی تکفیر کرتا ہے۔ یہ حیثیت اب کسی کو حاصل نہیں ۔20

18"امام غلطی کرے اور اس پر خود متنبہ نہ ہو تو مقتدی اسے متنبہ کرسکتے ہیں ۔ اس کے لئے سنت یہ ہے کہ وہ سبحان اللہ کہیں گے۔ عورتیں اپنی آواز بلند کرنا پسند نہ کریں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ وہ ہاتھ پر ہاتھ مار کر متنبہ کردیں ۔" 21

19،20 "ریاست اگر چاہے تو حالات کی رعایت سے کسی چیز کو زکوٰة سے مستثنیٰ قرار دے سکتی، اور جن چیزوں سے زکوٰة وصول کرے، ان کے لئے عام دستور کے مطابق کوئی نصاب بھی مقرر کرسکتی ہے۔" 22

21"بنی ہاشم کے فقراء و مساکین کی ضرورتیں بھی زکوٰة کے اموال سے اب بغیر کسی تردّد کے پوری کی جاسکتی ہیں ۔" 23

22 (الف) "ان دو[جرائم قتل نفس اور فساد فی الارض] کے سوا، فرد ہو یا حکومت، یہ حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی شخص کی جان کے درپے ہو اور اسے قتل کرڈالے۔" 24
(ب) "اللہ تعالیٰ نے پوری صراحت کے ساتھ فرمایا ہے کہ ان دو جرائم (قتل نفس اور فساد فی الارض) کو چھوڑ کر، فرد ہو یا حکومت، یہ حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی شخص کی جان کے درپے ہو اور اسے قتل کرڈالے۔"" 25

23 چنانچہ اس (قرآن) نے اس (دیت کے) معاملے میں "معروف" کی پیروی کا حکم دیا ہے۔ قرآن کے اس حکم کے مطابق ہرمعاشرہ اپنے ہی معروف کا پابند ہے۔ ہمارے معاشرے میں دیت کا کوئی قانون چونکہ پہلے سے موجود نہیں ہے، اس وجہ سے ہمارے اربابِ حل و عقد کو اختیار ہے کہ چاہیں تو عرب کے اس دستور کو برقرار رکھیں اور چاہیں تو اس کی کوئی دوسری صورت تجویز کریں وہ جو صورت بھی اختیار کریں گے، معاشرہ اسے قبول کرلیتا ہے تو ہمارے لئے وہی "معروف " قرار پائے گی۔ 26

24،25"اسلام نے دیت کی کسی خاص مقدار کا ہمیشہ کے لئے تعین نہیں کیا، نہ عورت اور مرد، غلام اور آزاد اور کافر اور مؤمن کی دیتوں میں کسی فرق کی پابندی ہمارے لئے لازم ٹھہرائی ہے۔" 27

26"لیکن فقہا کی یہ رائے (کہ ہرمرتد کی سزا قتل ہے) محل نظر ہے۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم (کہ جوشخص اپنا دین تبدیل کرے، اُسے قتل کردو) تو بے شک ثابت ہے مگر ہمارے نزدیک یہ کوئی حکم عام نہ تھا، بلکہ صرف انہی لوگوں کے ساتھ خاص تھا جن میں آپ کی بعثت ہوئی اور جن کے لئے قرآن مجید میں اُمیین یا مشرکین کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔" 28

27 "سورۂ نور میں زنا کے عام مرتکبین کے لئے ایک متعین سزا ہمیشہ کے لئے مقرر کردی گئی۔ زانی مرد ہو یا عورت، اس کا جرم اگر ثابت ہوجائے تو اس کی پاداش میں اسے سو کوڑے مارے جائیں گے۔" 29

28 "قطع ید کی یہ سزا "جَزَآءًۢ بِمَا كَسَبَا نَكَـٰلًا مِّنَ ٱللَّهِ"ہے۔ لہٰذا مجرم کو دوسروں کے لئے عبرت بنا دینے میں عمل اور پاداشِ عمل کی مناسبت جس طر ح یہ تقاضا کرتی ہے کہ اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے، اسی طرح یہ تقاضا بھی کرتی ہے کہ اس کا دایاں ہاتھ ہی کاٹا جائے۔" 30

29 (الف) "یہ بالکل قطعی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر شراب نوشی کے مجرموں کو پٹوا دیا تو شارع کی حیثیت سے نہیں ، بلکہ مسلمانوں کے حکمران کی حیثیت سے پٹوایا اور آپ کے بعد آپ کے خلفا نے بھی ان کے لئے چالیس کوڑے اور اسی کوڑے کی یہ سزائیں اسی حیثیت سے مقرر کی ہیں ۔ چنانچہ ہم پورے اطمینان کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ یہ کوئی حد نہیں ، بلکہ محض تعزیر ہے جسے مسلمانوں کا نظم اجتماعی، اگر چاہے تو برقرار رکھ سکتا اور چاہے تو اپنے حالات کے لحاظ سے اس میں تغیر و تبدل کرسکتا ہے۔"" 31
(ب) "یہ (شراب نوشی پر 80 کوڑوں کی سزا) شریعت ہرگز نہیں ہوسکتی۔" 32

30 حدود کے جرائم ہوں یا ان کے علاوہ کسی جرم کی شہادت، ہمارے نزدیک یہ قاضی کی صوابدید پر ہے کہ وہ کس کی گواہی قبول کرتا ہے اور کس کی گواہی قبول نہیں کرتا۔ اس میں عور ت اور مرد کی تخصیص نہیں ہے۔" 33

31 "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی (قرابت ِنافعہ) کے پیش نظر جزیرہ نمائے عرب کے مشرکین اور یہود و نصاریٰ کے بارے میں فرمایا:
(لا یرث المسلم الکافر ولا الکافر المسلم) 34
"نہ مسلمان ان میں سے کسی کافر کے وارث ہوں گے اور نہ یہ کافر کسی مسلمان کے۔"
یعنی اتمامِ حجت کے بعد جب یہ منکرین حق خدا اور مسلمانوں کے کھلے دشمن بن کر سامنے آگئے ہیں تو اس کے لازمی نتیجے کے طور پر قرابت کی منفعت بھی ان کے اور مسلمانوں کے درمیان ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئی۔ چنانچہ یہ اب آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوسکتے۔" 35

32 (الف) "اولاد میں دو یا دو سے زائد لڑکیاں ہی ہوں تو اُنہیں بچے ہوئے ترکے کا دوتہائی دیا جائے گا۔" 36
(ب) "وہ سب (والدین اور زوجین کے حصے) لازماً پہلے دیئے جائیں گے اور اس کے بعد جو کچھ بچے گا، صرف وہی اولاد میں تقسیم ہوگا۔ لڑکے اگر تنہا ہوں تو اُنہیں بھی یہی ملے گا اور لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہوں تو ان کے لئے بھی یہی قاعدہ ہوگا۔ اسی طرح میت کی اولاد میں اگر تنہا لڑکیاں ہی ہوں تو اُنہیں بھی اس بچے ہوئے ترکے ہی کا دوتہائی یا آدھا دیا جائے گا، ان کے حصے پورے ترکے میں سے کسی حال میں ادا نہ ہوں گے۔" 37

33 (الف) " اُن علاقوں میں جہاں سور کا گوشت بطورِ خوراک استعمال نہیں کیا جاتا، وہاں اس کی کھال اور دوسرے جسمانی اجزا کو تجارت اور دوسرے مقاصد کے لئے استعمال کرنا ممنوع قرار نہیں دیا جاسکتا۔ 38
(ب) "یہ سب چیزیں (خون، مردار، سو ٔر کا گوشت اور غیراللہ کے نام کا ذبیحہ) جس طرح کہ قرآن کی ان آیات سے واضح ہے، صرف خوردونوش کے لئے حرام ہیں ۔ رہے ان کے دوسرے استعمالات تو وہ بالکل جائز ہیں ۔ 39

34 "دوپٹہ ہمارے ہاں مسلمانوں کی تہذیبی روایت ہے ، اس بارے میں کوئی شرعی حکم نہیں ہے۔ دوپٹے کو اس لحاظ سے پیش کرنا کہ یہ شرعی حکم ہے، اس کا کوئی جواز نہیں ۔" 40

35 "اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کے ذریعے اسے (انسان کو) بتایا کہ سو ٔر، خون، مردار اور خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کئے گئے جانور بھی کھانے کے لئے پاک نہیں ہیں اور انسان کو ان سے پرہیز کرنا چاہئے۔ اس معاملے میں شریعت کا موضوع اصلاً یہ چار ہی چیزیں ہیں ۔ قرآن نے بعض جگہ (قُل لَّآ أَجِدُ فِى مَآ أُوحِىَ إِلَىَّ) اور بعض جگہ "اِنَّمَا" کے الفاظ میں پورے حصر کے ساتھ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف یہی چار چیزیں حرام قرار دی ہیں ۔" 41

36 "اللہ تعالیٰ ان (رسولوں ) کو کسی حال میں ان کا تکذیب کرنے والوں کے حوالے نہیں کرتا۔ نبیوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی قوم ان کی تکذیب ہی نہیں کرتی، بارہا ان کے قتل کے درپے ہوجاتی ہے اور ایسا بھی ہوا ہے کہ وہ اس میں کامیاب ہوجاتی ہے... لیکن قرآن ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ رسولوں کے معاملے میں اللہ کا قانون مختلف ہے۔" 42

37 (الف) " حضرت مسیح کو یہود نے صلیب پر چڑھانے کا فیصلہ کرلیا تو فرشتوں نے اُن کی روح ہی قبض نہیں کی، اُن کا جسم بھی اُٹھا لے گئے کہ مبادا یہ سرپھری قوم اس کی توہین کرے۔" 43
(ب) مسیح علیہ السلام کو جسم و روح کے ساتھ قبض کرلینے کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا، جب اللہ نے کہا: اے عیسیٰ! میں تجھے قبض کرلینے والا ہوں ..." 44

38 "ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کے قریب یاجوج ماجوج ہی کے خروج کو دجال سے تعبیر کیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یاجوج ماجوج کی اولاد یہ مغربی اقوام، عظیم فریب پر مبنی فکر و فلسفہ کی علمبردار ہیں اور اسی سبب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں دجال (عظیم فریب کار) قرار دیا ہے۔ روایات میں دجال کی ایک صفت یہ بھی بیان ہوئی ہے کہ اس کی ایک آنکھ خراب ہوگی۔ یہ بھی درحقیقت مغربی اقوام کی انسان کے روحانی پہلو سے پہلوتہی اورصرف مادّی پہلو کی جانب جھکاؤ کی طرف اشارہ ہے۔ اسی طرح مغرب کی طرف سے سورج کا طلوع ہونا بھی غالباً مغربی اقوام کے سیاسی عروج ہی کے لئے کنایہ ہے۔" 45

غامدی صاحب کے چند مزید اجتہادات
1. عورت مردوں کی امامت کرا سکتی ہے۔ 46
2. عورت نکاح خوان بن سکتی ہے۔ جناب جاوید احمد غامدی نے، اس سوال کے جواب میں کہ کیا کوئی عورت نکاح پڑھا سکتی ہے؟فرمایا:''جی ہاں ! بالکل پڑھا سکتی ہے...الخ'' 47
3. مرد اور عورتیں برابر کھڑے ہوکر باجماعت یا انفرادی دونوں طرح سے نماز ادا کرسکتے ہیں ۔ غامدی صاحب کے ایک شاگرد سکالر سے سوال کیا گیا،کیا مرد اور عورت اکٹھے کھڑے ہو کر باجماعت نماز ادا کرسکتے ہیں ؟ تو اس کا یہ جواب دیا گیا:
4. ''مرد اور عورت کھڑے ہو کر باجماعت یا انفرادی،دونوں طرح سے نماز ادا کر سکتے ہیں ۔اس سے دونوں کی نماز میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا...48
5. اجنبی مردوں کے سامنے عورت بغیر چادر اوڑھے یا بغیر دوپٹہ یا اوڑھنی سر پر لئے آجاسکتی ہے۔
6. رقص وسرود جائز ہے۔ 'اشراق' کے نائب مدیر سید منظور الحسن اپنے مضمون 'اسلام اور موسیقی' جو 'جاوید غامدی کے افادات' پر مبنی ہے، میں لکھتے ہیں :
''موسیقی انسانی فطرت کا جائز اظہار ہے، اس لئے اس کے مباح ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔'' ... ''ماہر فن مغنیہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنا گانا سنانے کی خواہش ظاہر کی تو آپ نے سیدہ عائشہؓ کو اس کا گانا سنوایا، سیدہ عائشہ حضورؐ کے شانے پر سررکھ کر بہت دیر تک گانا سنتی اور رقص دیکھتی رہیں ۔'' 49
7. جاندار چیزوں کی تصویریں بنانا جائز ہے۔ ادارہ 'المورد' کے ریسرچ سکالر جناب محمد رفیع مفتی اپنی کتاب'تصویر کا مسئلہ' میں لکھتے ہیں :
''...لیکن فی نفسہٖ تصویر کے بارے میں کسی اعتراض کی کیونکر گنجائش ہو سکتی ہے،جب کہ خدا اور اس کے رسول نے اُنہیں جائز رکھا ہو؟'' 50
مردوں کے لئے داڑھی رکھنا دین کی رُو سے ضروری نہیں ۔ جیسا کہ المورد کے ایک ریسرچ سکالر لکھتے ہیں :
''عام طور پر اہل علم داڑھی رکھنا دینی لحاظ سے ضروری قرار دیتے ہیں ، تاہم ہمارے نزدیک داڑھی رکھنے کا حکم دین میں کہیں بیان نہیں ہوا،لہٰذا دین کی رو سے داڑھی رکھنا ضروری نہیں ۔''51
8. ہندو مشرک نہیں ہیں ۔ چنانچہ غامدی صاحب کے ایک شاگرد''کیا ہندومشرک ہیں ؟'' کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں :
''ہمارے نزدیک مشرک وہ شخص ہے جس نے شرک کی حقیقت واضح ہو جانے کے بعد بھی شرک ہی کو بطور دین اپنا رکھا ہو۔چونکہ اب کسی ہندو کے بارے میں یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے شرک کی حقیقت واضح ہو جانے کے بعد بھی شرک ہی کو بطور دین اپنارکھا ہے،لہٰذا اسے مشرک نہیں قرار دیا جا سکتا ہے...الخ'' 52
9. مسلمان لڑکی کی شادی غیر مسلم لڑکے سے جائز ہے۔حلقہ غامدی کے ایک صاحب لکھتے ہیں :
'' ہماری رائے میں غیر مسلم کے ساتھ شادی کو ممنوع یا حرام قرار نہیں دیا جا سکتا۔'' 53
10. ہم جنس پرستی ایک فطری چیز ہے، اس لئے جائز ہے۔'المورد' کے انگریزی مجلہ رینی ساں کے شمارئہ اگست ۲۰۰۵ء میں اس موضوع پر ایک مکمل مضمون شائع کیا گیا ہے۔
11. اگر بغیر سود کے قرضہ نہ ملتا ہو تو سود پر قرضہ لے کر گھر بنانا جائز اور حلال ہے۔
12. قیامت کے قریب کوئی امام مہدی نہیں آئے گا۔54
13. افغانستان اور عراق پر امریکہ حملے جائز اور درست ہیں ۔
14. اسامہ بن لادن اور ملا عمر، دونوں انتہا پسند اور دہشت گرد ہیں ۔ ان کا موقف شرعی طور پر درست نہیں ہے۔
15. مسجد ِاقصیٰ پر مسلمانوں کا نہیں ، یہودیوں کا حق ہے۔جیسا کہ یہ بحث 'محدث' میں تفصیل سے شائع ہو رہی ہے۔
16. حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کا انکاروغیرہ وغیرہ 55


حوالہ جات

1. میزان :ص25،26، طبع دوم اپریل 2002ء لاہور
2. میزان: ص32، طبع دوم، اپریل 2002ء
3. اُصول ومبادی: 22، 23، طبع دوم، فروری 2005ء
4. میزان:ص22، طبع دوم، اپریل2002
5. میزان: ص34،35، طبع دوم، اپریل 2002ء
6. البیان: ص252، مطبوعہ ستمبر 1998ء
7. البیان: ص157، طبع ستمبر 1998ء
8. البیان:ص260، مطبوعہ ستمبر 1998ء
9. البیان: تفسیر سورۂ الفیل، ص240،241
10. میزان: ص52، طبع دوم، اپریل 2002ء
11. میزان: ص65، طبع دوم، اپریل 2002ء
12. میزان: ص10، طبع دوم، اپریل 2002ء، لاہور
13. میزان، ص10، طبع دوم، اپریل 2002ء، لاہور
14. میزان:ص10، طبع دوم، اپریل 2002ء
15. میزان، ص10،11، طبع دوم، اپریل 2002ء، اُصول ومبادی: ص 68
16. میزان: حصہ دوم، ص 68، طبع دوم، اپریل 2002ء، لاہور
17. میزان، ص31، طبع دوم، اپریل 2002ء
18. میزان، طبع دوم، ص48، مطبوعہ اپریل 2002ء
19. میزان: ص49، طبع دوم، اپریل 2002ء
20. ماہنامہ اشراق: دسمبر 2000ء ص54،55
21. قانونِ عبادات: ص84، اپریل 2005ء
22. قانونِ عبادات: ص119، طبع اپریل 2005ء
23. قانون عبادات، ص119، طبع اپریل 2005ء
24. برہان: ص 143، طبع چہارم جون 2006ء
25. میزان: ص283، طبع دوم، اپریل 2002ء
26. برہان: ص18،19، طبع چہارم، جون2006ء
27. برہان: ص18، طبع چہارم، جون 2006ء
28. رہان: ص140، طبع چہارم، جون 2006ء
29. میزان: ص299ـ300، طبع دوم ، اپریل 2002ء
30. میزان: ص306،307، طبع دوم، اپریل 2002ء
31. برہان: ص139، طبع چہارم، جون 2006ء
32. برہان: ص138 ، طبع چہارم، جون 2006ء
33. برہان: ص27، طبع چہارم، جون 2006ء
34. بخاری:رقم 6764
35. میزان: ص171، طبع دوم، اپریل 2002ء، لاہور
36. میزان، حصہ اوّل، ص70، طبع مئی 1985ء
37. میزان: ص168، طبع اپریل 2002ء
38. ماہنامہ "اشراق":اکتوبر 1998ء، ص79
39. میزان، ص320، طبع دوم، اپریل 2002ء
40. ماہنامہ اشراق: شمارہ مئی 2002ء، ص47
41. میزان: ص311، طبع اپریل 2002ء
42. میزان: حصہ اوّل، ص21، مطبوعہ 1985ء
43. میزان: حصہ اوّل، ص22، مطبوعہ 1985ء
44. میزان: حصہ اوّل، ص23،24، مطبوعہ 1985ء
45. ماہنامہ اشراق:جنوری 1996ء، ص61
46.  دیکھئے: ماہنامہ 'اشراق': مئی 2005، ص 35 تا 46
47. www.ghamidi.org
48.  www.urdu.understanding-islam.org
49.  اشراق بابت مارچ 2004ء، ص 8 و 19

50. 'تصویرکامسئلہ'،ص30
51.  www.urdu.understanding-islam.org
52.  www.urdu.understanding-islam.org
53.  www.urdu.understanding-islam.org
54.  ماہنامہ اشراق: جنوری 1996ء، ص 60
55.  ماہنامہ اشراق: جنوری 1996ء، ص60


 

i. "اُنہیں (نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو) قتال کا جو حکم دیا گیا، اس کا تعلق شریعت سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے قانون اتمامِ حجت سے ہے۔" (میزان: ص264، طبع اپریل 2002ء، لاہور)
ii. "یہ بالکل قطعی ہے کہ منکرین حق (کافروں ) کے خلاف جنگ اور اس کے نتیجے میں مفتوحین پر جزیہ عائد کرکے اُنہیں محکوم اور زیردست بنا کررکھنے کا حق اب ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا ہے۔""(میزان: ص270، طبع اپریل 2002ء، لاہور)