عشرئہ ذو الحجہ اورعیدا لاضحی کے فضائل واحکام

تمام تعریف اللہ تبارک و تعالیٰ کو سزاوار ہے جس نے اپنے صالح بندوں کو ایسے مواقع عطا کئے جن میں کثرت کے ساتھ نیک اعمال بجا لاتے ہیں اور موت تک اُنہیں یہ مہلت اور موقع فراہم کیا کہ نیکیوں کے ان مختلف موسموں سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے دن اور رات کی مبارک گھڑیوں میں بھلائیوں کے وافر ثمرات اپنے دامن میں سمیٹ سکیں ۔ اور درود و سلام ہوں ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل اور ان کے تمام اصحاب ؓپر!
اُمت ِمحمدیہ کی عمریں سابقہ اُمم کے مقابلہ میں بہت ہی کم ہیں ۔ آپؐ نے فرمایا:

(أعمار أمتي ما بین الستین إلی السبعین)1
''میری اُمت کے لوگوں کی عمریں ساٹھ اور ستر سال کے درمیان ہیں ۔''

لیکن اللہ تعالیٰ نے عمروں کی اس کمی کی تلافی اس طرح سے کی کہ اُنہیں ایسے کثیر اعمالِ صالحہ عنایت فرمائے جو گویا عمر میں برکت کا باعث ہیں ۔ جو شخص ان اعمال کو بجا لائے گا، گویا اسے ایک طویل عمر عطا کی گئی۔ان اعمال میں سے ایک عمل شب ِقدر کی عبادت ہے کہ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
لَيْلَةُ ٱلْقَدْرِ‌ خَيْرٌ‌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ‌ۢ ﴿٣...سورة القدر
'' شب ِقدر (کی عبادت) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔''

امام رازی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :
''اعلم أن من أحیاھا فکأنما عبد اﷲ نیفا وثمانیة سنة ومن أحیاھا کل سنة فکأنما رزق أعمارا کثیرة '' ''

جان لو! جس نے اس شب عبادت کی، اس نے گویا اللہ کی اسّی سے زائد سال عبادت کی اور جس نے ہر سال ایسا کیا گویا اسے بہت ساری عمریں عطا کی گئیں ــ۔''

ایسے مبارک اوقات میں ذوالحجہ کے دس دن بھی شامل ہیں جن کی فضیلت قرآنِ کریم اور احادیث میں وارد ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
وَٱلْفَجْرِ‌ ﴿١﴾ وَلَيَالٍ عَشْرٍ‌ۢ﴿٢...سورة الفجر
''قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی۔''

امام ابن کثیر رحمة اللہ علیہ اس کی تفسیر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سے مراد ذوالحجہ کے دس دن ہیں ۔
اور اِرشادِ ربانی ہے:وَيَذْكُرُ‌وا ٱسْمَ ٱللَّهِ فِىٓ أَيَّامٍ مَّعْلُومَـٰتٍ...﴿٢٨...سورة الحج
'' ا ن معلوم دِنوں میں اللہ کے نام کا ذکر کریں ۔''

ابن عباسؓ کا قول ہے: ''أیام معلومات سے ذوالحجہ کے دس دن مراد ہیں ۔''
امام بخاری رحمة اللہ علیہ رحمة اللہ علیہ اپنی صحیح میں ابن عباسؓ سے روایت لائے ہیں کہ نبیؐ نے فرمایا:
(ما العمل في أیام أفضل من ھذہ) قالوا: ولا الجهاد؟ قال: (ولا الجهاد إلا رجل خرج یخاطر بنفسه وماله فلم یرجع بشيء) 2
''(ذوالحجہ) کے دِنوں میں کئے گئے اعمال سے کوئی عمل افضل نہیں ۔صحابہؓ نے عرض کی: جہادبھی نہیں ؟ آپؐ نے فرمایا: جہاد بھی نہیں ، مگر وہ شخص جواپنی جان اور مال لے کر اللہ کے رستے میں نکلا اور کسی چیز کے ساتھ واپس نہ لوٹا۔''

ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(ما من أیام أعظم عند اﷲ ولا أحب إلیه العمل فیھن من ھذہ الأیام العشر فأکثروا فیھن من التھلیل والتکبیر والتحمید(i))  3
''اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نزدیک ان دس دنوں سے زیادہ کوئی دن برتر نہیں اور نہ ہی ان ایام میں کئے گئے اعمال سے کوئی عمل زیادہ پسندیدہ ہے۔ پس ان دنوں میں کثرت کے ساتھ اللہ کی تہلیل،کبریائی اور تعریف کرو۔''

سعید بن جبیر رحمة اللہ علیہ کے متعلق آتا ہے کہ جب ذوالحجہ کے دس دن شروع ہوتے تو آپ رحمة اللہ علیہ اعمال میں اپنی طاقت سے بڑھ کر محنت کرتے اور آپ رحمة اللہ علیہ کا یہ فرمان بھی ہے کہ ''اس عشرے کی راتوں میں اپنے چراغوں کو بجھنے نہ دو۔'' (یعنی قراء ت اور قیام کا اہتمام کرو)
ابن حجر رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :
والذي یظھر أن السبب في امتیاز عشر ذي الحجة لمکان اجتماع أمھات العبادة فیه،وھي الصلاة والصیام والصدقة والحج،ولا یتأتي ذلي في غیرہ 4
' 'عشرئہ ذوالحجہ کی برتری کا سبب یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس میں نماز، روزہ، زکوٰة اور حج جیسی اساسی عبادات جمع ہوچکی ہیں جبکہ دوسرے دنوں میں ایسا نہیں ۔''

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ ذوالحجہ کے دس دن افضل ہیں یا رمضان المبارک کے آخری دس دن؟ تو آپ رحمة اللہ علیہ نے جواب دیا:''

ذوالحجہ کے دس دن رمضان المبارک کے آخری دس دنوں سے افضل ہیں اور رمضان کے آخری دنوں کی راتیں ذوالحجہ کے عشرہ کی راتوں سے افضل ہیں ۔'' 5

مسلمان بھائیو ! اپنے وقت کو کارآمد بنانے اور قیمتی گھڑیوں کے فوائد سمیٹنے میں جلدی کیجئے تاکہ آپ کی باقی ماندہ عمر کامول پڑ جائے اور اللہ سے آئندہ وقت ضائع کرنے کی معافی مانگئے،بلاشبہ ان مبارک ایام میں نیک اعمال کی چاہت میں رہنا بھلائی کی طرف پیش رفت ہے اور تقویٰ پردلالت کرتا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ذَ‌ٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَـٰٓئِرَ‌ ٱللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى ٱلْقُلُوبِ ﴿٣٢...سورة الحج
جو اللہ کی نشانیوں کی عزت و تکریم کرے تو یہ اس کے دلی تقویٰ کی وجہ سے ہے۔''

اِن ایام میں مستحب افعال
ایک مسلمان کو یہی زیبا ہے کہ وہ اس عام بھلائی کے موسموں کا سچی توبہ کے ساتھ استقبال اور خیرمقدم کرے۔کیونکہ دنیاو آخرت میں اگر کوئی خیر سے محروم ہوتا ہے تو صرف اپنے گناہوں کی وجہ سے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمَآ أَصَـٰبَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُوا عَن كَثِيرٍ‌ۢ ﴿٣٠...سورة الشوری

''تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی کابدلہ ہے، وہ تو بہت سی باتوں سے درگزر فرمالیتاـہے۔ ''

گناہ دِلوں پرقدیم اثرات چھوڑ جاتے ہیں ۔ جس طرح زہرجسموں کو نقصان پہنچاتا ہے اور جسم سے ان کانکالنا ضروری ہوجاتا ہے بعینہٖ گناہ بھی دلوں پر مکمل طور پر اثر چھوڑتے ہیں ، اسی طرح سیاہ کاریاں الگ کھیتی اُگا دیتی ہیں اورگناہوں کی دوسری آلائشوں کو بھی دعوت دیتی ہیں ، جس سے ان کی نمو ہوتی رہتی ہے حتیٰ کہ ان آلائشوں کو انسان کے لئے دلوں سے نکالنا یا علیحدہ کرنا انتہائی دشوار ہوجاتا ہے۔ لہٰذا مسلمانو!سچی توبہ کرتے ہوئے،سیاہ کاریوں اورگناہوں سے دامن بچاتے ہوئے اللہ سے بہ اصرا ربخشش طلبی کے ساتھ ان ایام کا استقبال کیجئے اور اللہ عزوجل کے ذکر پر ہمیشگی اختیار کرلیں ۔ ہم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اچانک کب اس کو موت کا بلاوا آجائے اور وہ اس دنیاے فانی سے کوچ کرجائے۔ اَب ہم ان چند نیک اعمال کا ذکر کرتے ہیں :

عام نیک اعمال کثرت کے ساتھ بجا لانا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ما من أیام أعظم عند اﷲ ولا أحب إلیه العمل فیھن من ھذہ الأیام العشر۔۔۔)6
اور وہ نیک اعمال جن کے بارے میں عام طور پر لوگ غفلت کاشکار رہتے ہیں ،ان میں قرآن کی تلاوت، بہت زیادہ صدقہ کرنا، مساکین پر خرچ کرنا، أمربالمعروف ونھی عن المنکر پر عمل کرنا وغیرہ شامل ہیں ۔

نماز
فرائض کی طرف جلدی کرنا، پہلی صف کے لئے سعی کرناپسندیدہ اعمال ہیں ۔ اسی طرح نوافل زیادہ سے زیادہ ادا کئے جائیں ، کیونکہ اللہ کے قرب کے لئے کئے جانے والے اعمال میں یہ سب سے افضل عمل ہے۔ ثوبانؓ کا بیان ہے کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
(علیك بکثرة السجود ﷲ فإنك لا تسجد ﷲ سجدة إلارفعك اﷲ بھا درجة، وحط عنك بھا خطیئة) 7
''اللہ کے آگے کثرت سے سجدہ ریز ہوا کر، اللہ کے آگے تیرے ایک سجدہ کرنے سے اللہ تیرا ایک درجہ بلندکردے گا اور تیری ایک خطا کو مٹا دے گا۔''
نمازکے لئے مکروہ اوقات کے علاوہ یہ نیک عمل ہروقت کیا جاسکتا ہے۔

روزے
حدیث میں ہے کہ کان رسول اﷲ! یصوم تسع ذي الحجة ویوم عاشوراء وثلاثة أیام من کل شھر8
''آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذو الحجہ کے نوروزےii، دس محرم اور ہرمہینے کے تین دن (ایامِ بیض) کے روزے رکھتے تھے۔''

حضرت حفصہؓ فرماتی ہیں :
(أربع لم یکن یدعھن رسول اﷲ ﷺ: صیام عاشوراء، والعشر، وثلاثة أیام من کل شھر، والرکعتین قبل الغداة)
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چار کام نہیں چھوڑتے تھے، عاشورا کا روزہ، عشرہ ذوالحجہiii کے روزے، اور ہر مہینے کے تین دن (ایام بیض)کے روزے اور فجر کی دو سنتیں ۔''9

اور آپؐ کا فرمان ہے: (ما من عبد یصوم یوما في سبیل اﷲ إلا باعد اﷲ بذلك الیوم وجھه عن النار سبعین خریفا)
''جو آدمی اللہ کے رستے میں ایک دن کا روزہ رکھتا ہے، اللہ اس کے اور جہنم کے درمیان ستر سال کی دوری ڈال دیتے ہیں ۔''10

عرفہ کے دن کا روزہ: آپؐ نے فرمایا: (صیام یوم عرفة أحتسب علی اﷲ أن یکفر السنة التي قبله والتي بعدہ)11
''عرفہ کے دن کاروزہ رکھنا،مجھے اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ایک سال قبل اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ بنا دے۔''

حج و عمرہ کی ادائیگی
نبیؐ کا فرمان ہے:(والحج المبرور لیس لہ جزاء إلا الجنة)
''حج مبرور کی جزا تو صرف جنت ہے۔'' 12
اور فرمایا:(من حج ھذا البیت فلم یرفث ولم یفسق رجع کیوم ولدته أمه) 13
''جس شخص نے اللہ کے گھرکا حج کیا اور بے ہودگی و فسق سے بچا رہا تو اس حالت میں لوٹے گا جیسے آج ہی ماں کے بطن سے پیدا ہوا ہو۔''

تکبیر، تہلیل اورتحمید
ابن عمرؓ کی روایت پہلے گزر چکی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''اِن دِنوں میں کثرت کے ساتھ تہلیل، تکبیر اور تحمید کیا کرو۔'' iv
امام بخاری رحمة اللہ علیہ کا بیان ہے کہ

''کان ابن عمر وأبوھریرة یخرجان إلی السوق في أیام العشر یکبِّران ویکبر الناس بتکبیرھما''
''حضرت عبداللہ بن عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں بازار میں نکل جاتے اور تکبیریں بلند کرتے اور لوگ بھی ان کے ساتھ تکبیریں کہنے میں مل جاتے۔'' 14
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :
''وکان عمر یکبر في قبته بمنی فیسمعه أھل المسجد فیکبرون ویکبر أھل الأسواق حتی ترتجَّ منٰی تکبیرا''
''حضرت عمرؓ منیٰ میں اپنے خیمہ میں تکبیریں بلند کرتے جسے مسجد کے لوگ سنتے اور تکبیریں کہتے اور بازار والے بھی تکبیریں کہناشروع کردیتے حتیٰ کہ منیٰ تکبیروں سے گونج اٹھتا۔''15


ابن عمرؓ اِن دِنوں میں منیٰ میں تکبیریں کہتے اور ان کی تکبیریں کہنے کا یہ سلسلہ نمازوں کے بعد، بستر پر، خیمہ میں ، مجلس میں اور چلتے پھرتے، سارے دِنوں میں جاری رہتا۔ مردوں کے لئے اونچی آواز میں تکبیریں کہنا مستحب ہے، جیساکہ حضرت عمرؓ، عبداللہ بن عمرؓ اور ابوہریرہ ؓسے ثابت ہے جبکہ عورتیں یہ تکبیرات پست آواز میں کہیں ۔ اُمّ عطیہ فرماتی ہیں :
۔۔۔حتی نخرج الحیض فیکن خلف الناس فیکبرن بتکبیرھم ویدعون بدعائھم ۔۔۔16
'' حتیٰ کہ ہم حیض والیوں کو بھی عیدگاہ کی طرف نکالیں اور وہ لوگوں کے پیچھے رہیں ان کی تکبیروں کے ساتھ تکبیریں کہیں اور ان کی دعاؤں کے ساتھ دعائیں کریں ۔''

ہم مسلمان ہیں اور ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ایسی سنت جو اَب متروک ہوتی جا رہی ہے کا احیا کریں ، وگرنہ قریب ہے کہ یہ سنت جس پرسلف صالحین کاربند تھے، اہل خیر و اصلاح کو بھی بھلا دی جائے۔

تکبیرات کے الفاظ v
اﷲ أکبر، اﷲ أکبر،اﷲ أکبر کبیرًا 17
اﷲ أکبرکبیرا، اﷲ أکبرکبیرا،اﷲ أکبروأجل،اﷲ أکبروﷲ الحمد 18
اﷲ أکبر،اﷲ أکبر،لا اله إلا اﷲ واﷲ أکبر،اﷲ أکبر وﷲ الحمد 19

عیدالاضحی کے احکام (یومِ عید کے احکام)
مسلمان بھائی! اللہ عزوجل کا شکر ادا کریں جس نے آپ کو یہ عظیم دن نصیب فرمایا اور آپ کی عمر دراز کی کہ آپ پے در پے ان دنوں اور مہینوں کو دیکھ لیں اور ان ماہ وایام میں ایسے اعمال، اقوال اور افعال کی نشاندہی فرما دی جو آپ کو اللہ کے قریب کرنے کا وسیلہ ہیں ۔عید اُمت ِمحمدیہ کا خاصہ، دین کی علامت اور اسلامی شعار ہے۔ اب اس کی حفاظت اور تعظیم ہم پرلازم ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَـٰٓئِرَ‌ ٱللَّـهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى ٱلْقُلُوبِ ﴿٣٢...سورة الحج
'' جو اللہ کی نشانیوں کی عزت و تکریم کرے تو یہ اس کے دلی تقویٰ کی وجہ سے ہے۔''

عید کے دن میں مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھا جائے:
نمازکے لئے جلد آنا
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 

فَٱسْتَبِقُوا ٱلْخَيْرَ‌ٰ‌تِ ۚ...﴿١٤٨...سورة البقرة 

''نیکیوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔''

اور عید کی نماز تو عظیم نیکیوں میں سے ہے۔

امام بخاری رحمة اللہ علیه باب التبکیر للعید(عید کی نماز کے لئے جلدی کرنے کا بیان) کے تحت حضرت براء بن عازبؓ کی یہ حدیث لائے ہیں :
خطبنا النبي ! یوم النحر فقال: (إن أوّل ما نبدأ به في یومنا ھذا أن نصلي۔۔۔)20
نحرکے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
''اس دن میں ہمارا سب سے پہلا کام عید کی نماز ادا کرنا ہے۔''

حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں :
''اس سے پتہ چلتا ہے کہ عید کے دن سواے عید کی نماز کی تیاری کے کسی کام میں مشغول ہونا مناسب نہیں اور یہ ضروری ہے کہ نمازِ عید سے پہلے اس کے علاوہ کچھ نہ کیا جائے۔ یہ امر عید گاہ کی طرف جلدی نکلنے کا تقاضا کرتا ہے۔''21

تکبیر کہنا
تکبیر مقید vi مشروع ہے جو کہ فرض نمازوں کے بعد کہی جاتی ہیں اور اس کا وقت یومِ عرفہ کے دن فجر کے بعد سے لے کر ایامِ تشریق کی آخری یعنی تیرہویں ذی الحجہ کی عصر کی نماز تک تکبیرات کہی جائیں ، جیسا کہ اللہ نے فرمایا:
وَٱذْكُرُ‌وا ٱللَّهَ فِىٓ أَيَّامٍ مَّعْدُودَ‌ٰتٍ ۚ...﴿٢٠٣...سورة البقرة
''اور اللہ کو ان چند گنتی کے دِنوں (ایامِ تشریق) میں یاد کرو۔''

قربانی کے جانور کوذبح کرنا
عید کی نماز کے بعد قربانی کے جانور کوذبح کیا جاتا ہے۔ نبیؐ نے فرمایا:

(من ذبح قبل أن یصلي فلیعد مکانھا أخری ومن لم یذبح فلیذبح)
''جس شخص نے عید کی نماز سے پہلے قربانی کا جانورذبح کیا تو وہ اس کی جگہ پر عید کے بعد ایک اور جانور ذبح کرے اور جس نے نماز سے پہلے ذبح نہیں کیا وہ بعد میں ذبح کرے۔''22
قربانی کا جانور ذبح کرنے کے چار دن ہیں جن میں ١٠ ذوالحجہ اور ایام تشریق کے تین دن ہیں جس طرح کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کل أیام التشریق ذبح
''ایام تشریق سب کے سب قربانی کے دن ہیں۔''vii  (السلسلة الصحیحة:2476)
عید کے دن نئے کپڑے ، خوشبو اور غسل
مردوں کے لئے عید کے دن یہ ہے کہ وہ غسل کریں ، خوشبو لگائیں اور اِسراف سے بچتے ہوئے عمدہ لباس پہنیں ، کپڑے کو ٹخنوں سے نیچے نہ لٹکائیں اورداڑھی مونڈنے جیسے حرام کام کا ارتکاب ہرگز نہ کریں ۔ عورتوں کو نمائشی بناؤ سنگھار کرنے اور خوشبو لگائے بغیر عیدگاہ کی طرف نکلنا چاہئے۔ مسلمان عورتوں کیلئے مناسب یہی ہے کہ وہ نماز وغیرہ کیلئے نکلیں تو اللہ کی نافرمانی سے بچتے ہوئے غیر محرم مردوں کے سامنے بناؤ سنگھار کی نمائش، بے پردگی اور خوشبو لگانے سے مکمل اجتناب کریں ۔

عیدگاہ کی طرف پیدل جانا اور جاے نماز
عیدگاہ کی طرف ممکن ہو تو پیدل جانا چاہئے اور یہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔عید کی نماز کھلی جگہ پر پڑھنا آپ ؐ سے ثابت ہے لیکن بارش وغیرہ کی وجہ سے مسجد میں بھی پڑھی جاسکتی ہے۔

مسلمانوں کے ساتھ نماز ادا کرنا اور خطبہ میں شمولیت
علماے محققین کے نزدیک عید کی نماز پڑھنا واجب ہے۔امام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کی بھی یہی رائے ہے، فرماتے ہیں :

أن صلاة العید واجبة لقوله تعالی فَصَلِّ لِرَ‌بِّكَ وَٱنْحَرْ‌ ﴿٢...سورة الکوثر

بے شک عید کی نماز اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی رو سے واجب قرار پاتی ہے23
اور یہ وجوب بغیر شرعی عذر کے ساقط نہیں ہوتا۔ حیض والیوں اور نوعمر لڑکیوں سمیت تمام عورتوں پر واجب ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ عید گاہ میں حاضر ہوں اور حیض والی عورتیں عیدگاہ میں علیحدہ رہیں ۔

راستہ بدلنا
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے مطابق عیدگاہ میں آتے جاتے راستہ بدلنا سنت ہے۔ 24

عید کی مبارک باد دینا
عیدکے دن مبارک باد کے طور پر تقبل اﷲ مناومنکم کے الفاظ کہے جائیں(viii) ۔ 25

نماز سے پہلے کچھ نہ کھانا
حضرت بریدہؓ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن نماز کے لئے کچھ کھا کر جاتے جبکہ عید الاضحی میں نماز کے بعد کچھ کھاتے۔26

ان مقدس ایام میں سرزد ہونے والے غیر مشروع کاموں سے اجتناب کیجئے۔ ان میں سے چند ایک کا ہم اختصار سے ذکر کرتے ہیں :
تکبیرات کو سب لوگوں کا ایک ہی آواز میں اکٹھے پڑھنا یا کسی ایک شخص کے تکبیر کہنے پر سب کا بیک زبان ہوکر تکبیرات پڑھنا۔
حرام کردہ چیزوں سے اس دن دل بہلانا، مثلاً گانا وغیرہ سننا، فلمیں دیکھنا، غیر محرم مردوزن کا آپس میں اختلاط اور اس کے علاوہ دیگرمنکرات کا ارتکاب۔
ان ایام میں قربانی کرنے والے کا بال اور ناخن کٹوانا جبکہ آپؐ نے ان دنوں میں اس عمل سے منع فرمایا ہے۔

بلا مصلحت اور بے فائدہ اسراف و تبذیر کرنا اور یہ اسراف وتبذیر خواہ وہ کپڑوں میں ہو یا کھانے اور پینے میں ہر حال میں حرام ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَلَا تُسْرِ‌فُوٓا ۚ إِنَّهُۥ لَا يُحِبُّ ٱلْمُسْرِ‌فِينَ ﴿١٤١...سورة الانعام

اِسراف نہ کرو بے شک وہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔''
عید کی شب بیداری کے مشروع ہونے کا عقیدہ رکھنا اوراس کی فضیلت میں غیر مستند روایات نقل کرنا۔
زیارتِ قبور اور مردوں کو سلام بھیجنے وغیرہ کے لئے عید کے دن کو شرعاً مخصوص سمجھنا۔
عید کے دن روزہ رکھنا، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الفطر کے دن اور عید الاضحی کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔27

ان ایام میں ہر مسلمان کو خاص طور پر نیکی اور خیر کے کاموں کی کوشش کرنا چاہیے اور وہ نیک اعمال: صلہ رحمی کرنا، عزیز و اقارب سے میل جول رکھنا، بغض ، حسد اور ناگواری سے اپنے دل کو پاک رکھنا، مسکینوں ، یتیموں اور فقراء پر مہربانی کرنا اور ان کے ساتھ تعاون کرکے اُنہیں آسودگی پہنچانا وغیرہ ہے۔

قربانی سے متعلقہ بعض مشروع احکام
اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فرمان:

فَصَلِّ لِرَ‌بِّكَ وَٱنْحَرْ‌ ﴿٢...سورة الکوثر

وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُم مِّن شَعَائِرِ‌ اللَّـهِ...﴿٣٦﴾...سورۃ الحج

کے ساتھ قربانی کرنے کو مشروع قرا ردیا ہے اور یہ سنت ِمؤکدہ ہے ، باوجود استطاعت کے قربانی نہ کرنے کو ناپسند کیا گیاہے۔

حضرت انس کی روایت میں ہے کہ ان رسول اﷲ ! ضحی بکبشین ملحین قرنین ذبحھما بیدہ وسمی وکبر(37)''نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے دو سینگوں والے چتکبرے مینڈھوں کی قربانی کی اور اُنہیں اپنے ہاتھ سے بسم اللہ، اللہ اکبر پڑھتے ہوئے ذبح کیا۔''
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

ما عمل آدم من عمل یوم النحر أحب إلی اﷲ من إہراق الدم،إنھا لتأت یوم القیامة بقرونھا وأشعارھا وأظلافها وإن الدم لیقع من اﷲ بمکان قبل أ ن یقع من الأرض،فطیبوا بھا نفسا
''نحر کے دن آدمی کاکوئی عمل ایسا نہیں جو اللہ کے ہاں اتنا پسندیدہ ہو جتنا کہ اس دن خون بہانا اور یہ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں، کھروں اوربالوں کے ساتھ آئے گا۔ اور خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی یہ عمل اللہ کی بارگاہ میں شرف قبولیت حاصل کر لیتا ہے ،پس اپنے دلوں کو قربانی کرنے پر راضی کرو۔'' 38
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے قربانی کرتے تھے۔
 شیخ محمد بن صالح عُثیمین سے سوال کیا گیا کہ کیا محتاج قرض لے کر قربانی کرسکتا ہے؟
آپ نے جواب دیا: ''اگر تو اسے یقین ہے کہ وہ قرض ادا کرسکتا ہے تو قرض لے کر قربانی کرلے اور اگروہ جانتا ہے کہ اس کے لئے قرض لوٹانا مشکل ہوجائے گا تو قربانی کے لئے اس کا قرض اُٹھانا مناسب نہیں۔''
قربانی صرف اونٹ، گائے، بھیڑ اور بکری کی ہوتی ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

لِّيَذْكُرُ‌وا ٱسْمَ ٱللَّهِ عَلَىٰ مَا رَ‌زَقَهُم مِّنۢ بَهِيمَةِ ٱلْأَنْعَـٰمِ ۗ...﴿٣٤...سورة الحج
''تا کہ (ہر اُمت کے) لوگ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے ان کو بخشے ہیں ۔''

قربانی کا جانور کیسا ہو؟
بہیمة:قربانی کے لئے اوّلین شرط یہ ہے کہ وہ جانو رہو جو اللہ نے مشروع کئے ہیں ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
لِّيَذْكُرُ‌وا ٱسْمَ ٱللَّهِ عَلَىٰ مَا رَ‌زَقَهُم مِّنۢ بَهِيمَةِ ٱلْأَنْعَـٰمِ ۗ...﴿٣٤...سورة الحج
''تا کہ (ہر اُمت کے) لوگ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے ان کو بخشے ہیں ۔''
واضح رہے کہ بہمیة میں اونٹ ، گائے، بھیڑ اور بکری وغیرہ شامل ہیں ۔

مُسِنّـة:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(لا تذبحوا إلا مسنة إلا أن یعسر علیکم فتذبحوا جذعة من الضأن) 28
''مُسِنَّـة (دو دانتا ) کے سوا کوئی جانور ذبح نہ کرو، اگر اس کا ملنا دشوار ہوجائے تو بھیڑ کا جذعہ (کھیرا) ذبح کرلو۔''


قربانی کی شرائط میں سے ہے کہ جانور ظاہری عیوب سے پاک ہو۔ حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا:
(أن نستشرف العین والأذن)29
''ہم جانور کی آنکھ اور کان اچھی طرح دیکھ لیں ۔''

رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(أربع لا تجوز في الأضاحي) فقال: (العوراء بین عورھا، والمریضة بین مرضھا، والعرجاء بین ضلعھا، والکسیر التي لا تنقي) 30
''قربانی کے لئے چار عیبوں والا جانورذبح نہیں کیا جا سکتا :(1) کانا: جس کا کانا پن ظاہرہو۔ (2) بیمار: جس کی بیماری واضح ہو۔ (3) لنگڑا : جس کا لنگڑاپن واضح ہو۔ (4) ایسا لاغر کہ اس کی ہڈیوں میں گودا تک نہ ہو۔''

قربانی کے ذبح کا وقت عید کی نماز کے فوراً بعد شروع ہوجاتا ہے ۔ آپؐ نے فرمایا:
(من ذبح قبل الصلاة فإنما یذبح لنفسه، ومن ذبح بعد الصلاة فقد تم نسکه وأصاب سنة المسلمین)
''جس نے عید کی نماز سے پہلے قربانی ذبح کرلی وہ صرف ذبیحہ ہے اور جس نے نماز کے بعد ذبح کیا، اس کی قربانی ادا ہوگئی اور اس نے مسلمانوں کے طریقہ کو پالیا۔''31

قربانی میں حصے
اونٹ کی قربانی میں دس افراد اور گائے کی قربانی میں سات افراد تک شریک ہوسکتے ہیں ۔ ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے کہ عید الاضحی آگئی۔ ہم نے اونٹ میں 10 آدمیوں اور گائے میں 7 آدمیوں نے شرکت کی۔ 32

ذبح کرنے والے کے لئے سنت طریقہ یہ ہے کہ وہ ذبح کرتے وقت جانور کے پہلو پر پائوں رکھے اور دائیں ہاتھ سے ذبح کرے اور ذبح کرتے وقت بسم اﷲ واﷲ أکبر پڑھے ۔ حضرت انسؓ سے مروی ہے:

أن رسول اﷲ ضحی بکبشین أملحین فرأیته واضعا قدمه علی صفاحهما، یسمي ویکبر فذبحهما بیدہ 33
''آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو چتکبرے مینڈھوں کی قربانی کی۔ میں نے دیکھا کہ آپؐ اپنا پائوں جانور کے پہلو پر رکھے ہوئے ہیں اور بسم اﷲ واﷲ أکبر پڑھ رہے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے ان دونوں مینڈھوں کو ذبح کیا۔''

اونٹ کو نَحرکرنا
اونٹ کو قربان کرنے کا مسنون طریقہ نَحر کرنا ہے۔ حضرت انس کہتے ہیں

أن النبي نحر سبع بدنات قیاما 34
''آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے کھڑے سات اونٹ اپنے ہاتھ سے ذبح کئے۔''

طریقہ: اونٹ کو کھڑا کرکے ایک گھٹنا باندھ دیا جاتا ہے اور کسی آلہ سے اس کی نحر کی جگہ( یعنی سینہ سے اوپر) گہرا زخم کردیا جاتا ہے ، جس سے سارا خون بہہ جانے کی وجہ سے اونٹ خود ہی گر جاتا ہے۔
قربانی دینے والے کے لئے یہ ہے کہ وہ قربانی کا گوشت خود کھائے، عزیز واقارب اور ہمسایوں کو ہدیہ کرے اور فقراء کو صدقہ کرے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا ٱلْبَآئِسَ ٱلْفَقِيرَ‌ ﴿٢٨...سورة الحج
'' پس تم خود بھی کھاؤ اور بھوکے فقیروں کوبھی کھلاؤـ۔''
فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا ٱلْقَانِعَ وَٱلْمُعْتَرَّ‌ ۚ...﴿٣٦...سورة الحج

'خود بھی کھاؤ اور قانع مسکین ( یعنی صبر شکر کرنے والے) اور سوال کرنے والوں کوبھی کھلاؤ۔''

اسلاف میں سے بعض پسند کرتے تھے کہ گوشت کے تین حصے کئے جائیں ix ایک حصہ اپنے لئے ، ایک اقربا کو ہدیہ کے لئے اور ایک حصہ فقرا کے لئے مختص کیا جائے۔ وہ قصاب کو اس گوشت میں سے اُجرت کے طور پر کچھ بھی نہ دیتے تھے۔
اگر آپ قربانی دینا چاہتے ہیں تو آپ پر ذو الحجہ کا مہینہ شروع ہوتے ہی قربانی ذبح کرنے تک ناخن اور بال وغیرہ کٹوانا حرام ہوجاتا ہے۔اُمّ سلمہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ذ ادخلت العشرأ راد أحدکم أن یضحي فلیمسك عن شعرہ وأظفارہ) 39

''جب کسی کا قربانی کا ارادہ ہو تو وہ ذی الحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہوتے ہی اپنے بال اور ناخن کٹوانے سے پرہیز کرے۔''
 ایک اور روایت میں ہے کہ ''قربانی ذبح کرنے تک اپنے بال اور جلد میں سے کسی چیز کو نہ چھیڑے۔''  40
اگر آپ نے اس عشرہ کے دوران قربانی کی نیت کرلی ہے تو جو پہلے ہوچکا سو ہوچکا، اب سے بال وغیرہ کاٹنے سے رُک جائیں اور یہ حکم صرف قربانی کرنے والے کے لئے ہے۔ ہاں اگر اس کے گھر کے دوسرے افراد اِن دِنوں میںبال وغیرہ کٹوا لیں تو کوئی حرج نہیں۔x
اور اگر کوئی قربانی کرنے والا اس فعل کا ارتکاب کربیٹھے تو اسے چاہئے کہ اللہ سے توبہ کرے اور دوبارہ یہ گناہ نہ کرے۔ اس گناہ کا کفارہ وغیرہ کچھ نہیں ہے اور نہ ہی یہ فعل اس کی قربانی میں اثرانداز ہوتا ہے۔ اور اس نے اپنے بال وغیرہ بھول کر یا کم علمی کی وجہ سے کاٹ لئے یاخود ہی گرگئے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ایسی حالت کہ جس میں یہ چیزیں کاٹنا ضروری ہوجائیں کاٹی جاسکتی ہیں اور اس میں کوئی حرج نہیں، مثلاً ناخن جلد کو تکلیف دے رہا ہے تو کاٹا جاسکتا ہے۔ اسی طرح وہ بال جو آنکھوں میں گرتے ہیں اور آنکھیں دکھتی ہیں یا پھر زخموں کا علاج کرنے کے لئے چیزوں کو کاٹنا پڑتا ہے۔
جہاں تک قربانی استطاعت نہ رکھنے والے مسلمانوں کا تعلق ہے تو علما کرام کا یہ موقف ہے کہ وہ اگر قربانی کے ثواب میں شریک ہونا چاہتے ہیں تو وہ بھی اپنے بال یا ناخن وغیرہ کاٹنے سے گریز کریں۔ اس مسئلہ کی بنیاد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حسب ِذیل فرمان ہے:

اور اگر کوئی قربانی کرنے والا اس فعل کا ارتکاب کربیٹھے تو اسے چاہئے کہ اللہ سے توبہ کرے اور دوبارہ یہ گناہ نہ کرے۔ اس گناہ کا کفارہ وغیرہ کچھ نہیں ہے اور نہ ہی یہ فعل اس کی قربانی میں اثرانداز ہوتا ہے۔ اور اس نے اپنے بال وغیرہ بھول کر یا کم علمی کی وجہ سے کاٹ لئے یاخود ہی گرگئے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ایسی حالت کہ جس میں یہ چیزیں کاٹنا ضروری ہوجائیں کاٹی جاسکتی ہیں اور اس میں کوئی حرج نہیں، مثلاً ناخن جلد کو تکلیف دے رہا ہے تو کاٹا جاسکتا ہے۔ اسی طرح وہ بال جو آنکھوں میں گرتے ہیں اور آنکھیں دکھتی ہیں یا پھر زخموں کا علاج کرنے کے لئے چیزوں کو کاٹنا پڑتا ہے۔
جہاں تک قربانی استطاعت نہ رکھنے والے مسلمانوں کا تعلق ہے تو علما کرام کا یہ موقف ہے کہ وہ اگر قربانی کے ثواب میں شریک ہونا چاہتے ہیں تو وہ بھی اپنے بال یا ناخن وغیرہ کاٹنے سے گریز کریں۔ اس مسئلہ کی بنیاد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حسب ِذیل فرمان ہے:
''ایک شخص نے نبی کریم1 سے پوچھا کہ میرے پاس محض دودھ کے لئے ایک بکری ہے، کیا میں اس کو بھی قربان کردوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :'' نہیں لیکن تو عید کے روز اپنے ناخن اور بال کاٹ لے، ا س سے تجھے بھی قربانی کا ثواب مل جائے گا۔'' 41

قربانی کی کھال
حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیوں کی نگرانی کروں اوران کا گوشت ، کھالیں اور جلیں صدقہ کردوں اور ان میں سے قصاب کو کچھ نہ دوں ۔ علیؓ کہتے ہیں کہ ہم قصاب کو اپنی گرہ سے اس کی اُجرت دیتے تھے۔ 35
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان کا گوشت کھائو، صدقہ کرو اور ان کی کھالوں سے فائدہ اُٹھائو۔'' 36
اس سے معلوم ہوا کہ کھال گھر میں جائے نماز، مشکیزہ یا کسی اور کام کے لئے رکھی جاسکتی ہے۔

مسلمانو! اس عظیم کام کے لئے آگے بڑھئے اور ان محروم لوگوں کی طرح نہ ہوجائیے کہ سارا سال مالِ کثیر خرچ کرتے ہیں اور جانور بھی ذبح کرتے ہیں لیکن جب عید کا وقت آتا ہے تو قربانی خریدنے میں سستی اور لاپرواہی برت جاتے ہیں ۔
اے اللہ! ہمیں یہ دن ہر سال دیکھنا نصیب فرما اور ہمیں اپنے نیک بندوں میں شامل فرما لے۔ ہمیں ، ہمارے والدین اور تمام مسلمانوں کی بخشش فرما۔ آمین!
وصلی اﷲ علی نبینا محمد وعلی آله وصحبه أجمعین



حوالہ جات
1. ترمذی:3550
2. صحیح بخاری:969
3. مسند احمد: 2؍75، مسند ابو عوانہ
4. فتح الباری:2؍460
5. فتاویٰ:6؍100
6. حوالہ سابق
7. مسلم:488
8. سنن ابوداود:2437
9. مسند احمد:6؍287
10. بخاری:2840، مسلم:1152
11. صحیح مسلم:1162
12. صحیح بخاری:774
13. صحیح بخاری:1820
14. صحیح بخاری قبل حدیث 969
15. صحیح بخاری قبل حدیث 970
16. صحیح بخاری:971
17. بیہقی:3؍316
18. مصنف ابن ابی شیبہ:2؍167
19. ایضاً
20. صحیح بخاری:968
21. فتح الباری:2؍457
22. صحیح بخاری:5562
23. فتاویٰ: 5؍298
24. صحیح بخاری:986
25. بیہقی: 3؍319
26. ترمذی:542
27. صحیح بخاری: 1991
28. صحیح مسلم
29. سنن ابو داود: 2804
30. ابوداود:2802
31. صحیح بخاری:5546
32. سنن ابن ماجہ: 3131، ترمذی: 905، نسائی: 4404
33. صحیح بخاری: 5558
34. سنن ابو داود: 3793
35. صحیح مسلم: 1317
36. مسند احمد: 4؍15

37. صحیح بخاری:1494

38. جامع  ترمذی:1493 'ضعیف'

39. صحیح مسلم:١٩٧٧

40. ایضاً

41. سنن ابو داود:2789'حسن'


 

i. اس کی سند میں یزید بن ابی زیاد ضعیف راوی ہے جب کہ انہی الفاظ سے ابن عمر سے ایک اور طریق سے حسن درجہ کی روایت وارد ہے ۔دیکھئے مسند ابی عوانہ:3024
ii. اس روایت کے بعد میں آنے والی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف کایہاں تسع ذ الحجة سے مقصود ذو الحجہ کے نو روزے ہیں۔واللہ أعلم! تسع ذ الحجة کا معنی 9روزے کرنا درست معلوم ہوتا ہے جس کی تائید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ حدیث أربع لم یکن یدعهن ...العشر... میں العشر:'دس روزے' کے الفاظ بھی کرتے ہیں،نیز امام ابوداود کا اس روایت کو باب في صوم العشر کے تحت لانا اور سنن نسائی کی روایت میں کان یصوم تسعا من ذ الحجة '' ذی الحجہ کے نو دن کے روزے ''کے الفاظ سے مزید وضاحت ہو جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحجہ کے مہینے کے 9 روزے رکھتے تھے۔ (مترجم)
iii. عشرہ ذو الحجہ میں دس ذو الحجہ کا دن شامل نہیں۔عشر کا لفظ باقی نو دن کے غلبہ کی وجہ سے بولا گیا ہے جب کہ دسویں ذی الحجہ کا روزہ رکھنے کی ممانعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، حضرت ابو سعید سے مروی ہے :
1 ''نهی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم عن صوم یوم الفطر والنحر'' (صحیح بخاری :1991)
2 '' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الفطراور عید الاضحی کے روزے سے منع فرمایا ہے۔'' ( مترجم)
iv. تہلیل: لاإ له إلا اﷲ، تکبیر: اﷲ أکبر، تحمید: الحمد ﷲ،صحابہ سے منقول تکبیرات اﷲ أکبراﷲ أکبر لا إله إلا اﷲ واﷲ أکبر اﷲ أکبر وﷲ الحمد پڑھنے سے ان تینوں پر عمل ہو جاتا ہے۔ (مترجم)

v. تکبیرات کے الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں البتہ اوّل الذکر الفاظ حضرت سلمان فارسی اور ثانی الذکر الفاظ ابن عباس   اور آخری کلمات عبد اللہ بن مسعود سے صحیح سند سے مروی ہیں۔(مترجم)
vi. تکبیر مقید سے کیا مراد ہے ،چند صفحات قبل یہ بحث گزری چکی ہے ۔ مزید برآں تکبیر مقید کے سلسلے میں ایک بحث پہلے بھی محدث میں شائع ہوچکی ہے، دیکھئے ڈاکٹر ابوجابر دامانوی کا مضمون مطبوعہ محدث جنوری 2006ء
vii. ذکر کردہ روایت کی صحت وضعف کے حکم کے بارے میں علما کے درمیان اختلاف ہے۔ لہٰذا علامہ البانی کی تصحیح کے باوجود اس روایت کی استنادی حالت مزید تحقیق کی متقاضی ہے ۔ (مترجم)
viii. یہ کلمات صحابہ کرام ایک دوسرے کو عید سے لوٹتے ہوئے کہتے تھے۔ابن ترکمانی لکھتے ہیں کہ ''محمد بن زیاد کہتے ہیں کہ صحابہ کرام جب لوٹتے تو ایک دوسرے کو تقبل اﷲ منا ومنك کہتے۔'' امام احمد بن حنبل نے اس کی سند کو' جید' کہا ہے۔ (الجوهر النقي علی ذیل سنن البیهقي:3193)
ix. حصوں کے تعین کے بارے میں کوئی صریح نص موجود نہیں، لہٰذا اسے وجوب پر محمول نہ کیا جائے بلکہ پسندیدہ عمل ہی سمجھا جائے جس طرح کہ مصنف نے لکھا ہے۔
x. مفتی اعظم شیخ عبد العزیز بن باز سے اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے یہ فتویٰ دیا کہ ''وہ لوگ جن کی طرف سے قربانی کی جارہی ہے، مثلاً قربانی کرنے والے کے بیوی بچے۔ جب گھر کا سربراہ اپنے اور اپنے افرادِ خانہ کی طرف سے قربانی کررہا ہے، تو ان افراد کے لئے اپنے بال یا ناخن ترشوانا وغیرہ حرام نہیں ہے کیونکہ وہ خود قربانی کرنے والے نہیں ہیں۔ قربانی کرنے والا صرف وہی ہے جس نے اپنے مال سے قربانی کی قیمت ادا کی ہے۔اور یہی رائے زیادہ راجح ہے۔'' (فتاویٰ اسلامیہ: 3172) (مترجم)