خفیہ ایجنسیاں اور عالمی سیاست

اسلامی جمہوریہ پاکستان کی خفیہ فوجی ایجنسی ISIآج کل اپنے پرایوں کے تابڑ توڑ حملوں کی زد میں ہے۔ کوئی دن نہیں گزرتا، جب کوئی پھلجھڑی نہ چھوڑی گئی ہو۔ آئی ایس آئی کا وزارتِ داخلہ کے ماتحت جانا ہو، اُلٹے پاؤں اُس کی واپسی ہو یاطالبان کیساتھ 'محبت کی پینگیں ' یا اس سے بھی آگے عالمی سطح پر ہونے والی ہرطرح کی دہشت گردی ہو، آئی ایس آئی کا نام سرفہرست ہے۔ طالبان سے 'رشتہ' اور عالمی دہشت گردی کے تمام تر شواہد امریکی اسٹیبلشمنٹ کے ہر ذمہ دار کے بریف کیس میں ہر لمحہ موجود رہتے ہیں جو موقعہ بہ موقعہ عالمی پریس کو فراہم کردیئے جاتے ہیں ۔

امریکہ جس 'شد و مد' سے آئی ایس آئی اور دہشت گردی کا رشتہ جوڑ رہا ہے، یوں محسوس ہوتاہے کہ مستقبل میں گلی محلے میں بچوں ، بڑوں کی باہم لڑائیوں میں بھی آئی ایس آئی کے ملوث ہونے کے شواہد امریکہ اور اس کے اتحادی فراہم کردیاکریں گے اور مبینہ طور پر امریکہ چونکہ سپرپاور ہے، اس لئے مستندہے اُن کا فرمایاہوا۔ 'ماتحت' حکمرانوں کو ماننے بلکہ ایمان لاتے ہی بنتی ہے۔ یہی وہ روّیہ ہے جو پاکستان کے عوام ایک عرصہ سے دیکھتے چلے آرہے ہیں !

امریکن CIAہو، بھارتی RAWہو، صہیونی MOSAD ہو یا افغانی KHAD ہو۔ یہ 'عالمی امن ' کے چارستون ہیں اور اِن کاوجود نہ ہوتا تو دنیا آج جس 'سکھ اور سکون' کاسانس لے رہی ہے، ممکن نہ ہوتا۔ پاکستان کے اندر ہونے والی دہشت گردی اگر 'کم' ہے تو اس کا سارا 'کریڈٹ' انہی چار ایجنسیوں کو جاتاہے۔ امریکہ، بھارت، اسرائیل اور افغانستان کا کم از کم یہی موقف ہے۔ ان کی ایجنسیاں پَوتر پانی سے دھلی دھلائی ہیں ۔ حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ مؤثر نیٹ ورک اگر ہے تو وہ FBI, CIA اور MOSAD کا ہے۔ دوسرے ممالک کی بھی ہوں گی،KGB بھی ہے مگر شاید ان سے کم۔ پوچھا جاسکتا ہے کہ عالمی سطح کا یہ نیٹ ورک ہے کس لئے؟ یہ صرف اور صرف اس لئے فعال ہے کہ دوسرے ممالک میں ہر قیمت پر انتشار پیدا کرکے، اسے کمزور کرکے، امریکی مفادات کی تکمیل کی جائے۔ ہم محض الزام نہیں دیتے، تہمت نہیں لگاتے، بطورِ دستاویزی شہادت ایک خط کا متن کویت کے مجلہ 'الدعوة' کے شکریہ کے ساتھ پیش کرتے ہیں :
منجانب : رچرڈ بی مچل (CIA،امریکہ)               بنام : سربراہ خفیہ سروس، CIAمصر

''آپ کے پاس ہمارے نمائندوں اورکارندوں کی بھیجی ہوئی جومعلومات جمع ہوچکی ہیں ، مصری اور اسرائیلی انٹیلی جنس کی جو رپورٹیں ہمیں ملی ہیں ، اُن سے پتہ چلتا ہے کہ مصر اور اسرائیل کے مابین جو سمجھوتہ ہونے والا ہے، اس کے راستے میں مزاحم ہونے والی قوت حقیقت میں اسلامی تنظیمیں ہیں ۔ ان تنظیموں میں سرفہرست 'اخوان المسلمین' ہے جو مختلف شکلوں میں عرب ممالک کے علاوہ یورپ اورامریکہ میں بھی کام کررہی ہیں ۔ اسرائیلی محکمہ جاسوسی نے سفارش کی ہے کہ معاہدہ پر دستخطوں سے پہلے اس پرکاری ضرب لگائی جائے... اس سفارش پر مصری وزیراعظم نے جزوی عمل کرکے جماعة الہجرة والتکفیر پر ضرب لگائی تھی۔ ان سب باتوں کے پیش نظر اخوان سے نبٹنے کے لئے متبادل حل کے طور پر مندرجہ ذیل ذرائع اختیار کرنے کی تجویز پیش کرتے ہیں :
(الف) مکمل خاتمے کے بجائے جزوی خاتمے پراکتفا کیا جائے اور صرف اُن رہنما شخصیتوں کو ختم کیا جائے جو دوسرے ذرائع سے، جن کا ہم آگے ذکر کرنے والے ہیں ، قابو میں نہ آئیں ، ہم اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ ان شخصیات کا خاتمہ ایسے طریقوں سے کیاجائے جو بالکل طبعی اور فطری ہوں ۔'' (مثلاً جنرل ضیاء الحق کے سی ۱۳۰، اور ایئر چیف مصحف میر کے فوکر کا کریش، یا اِخوان کے مرشد عام حسن البنا کاقتل وغیرہ)
(ب) جن بڑی شخصیات سے چھٹکارا حاصل کرنے کافیصلہ کیا جائے، اُن کے سلسلے ہم مندرجہ ذیل اقدامات کی سفارش کرتے ہیں :

  1. جن لوگوں کو بڑے بڑے منصب دے کر ورغلایا جاسکتا ہے، اُن کو بے ضرر قسم کے بڑے بڑے اسلامی منصوبوں میں بڑے منصب دے کر اُن کی قوت کو وہیں نچوڑ دیا جائے۔
  2. ان کی قیادتوں کو آپس میں شکوک و شبہات سے باہم ٹکرایا جائے۔ اختلافات کا بیج بوکر خلیج وسیع سے وسیع تر کی جائے تاکہ وہ باہمی سرپھٹول سے تعمیری کام نہ کرسکیں ۔
  3. مذہبی فروعی اختلافات کی خلیج کو وسیع کیا جائے، 'مذہبی رسوم و رواج' کو خوب ہوا دیں تاکہ ساری صلاحیتیں اس میں کھپتی رہیں ۔
  4. نوجوانوں کی توجہ اسلامی تعلیمات کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہ ایک رو ہے جس کا مقابلہ ضروری ہے۔ خاص طور پر لڑکیاں اسلامی لباس کاالتزام کررہی ہیں ۔ اس کا مقابلہ ذرائع نشر واشاعت، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیااور جوابی 'ثقافتی' سرگرمیوں کے ذریعے ضروری ہے۔''

دستخط      رچرڈ بی مچل

امریکی CIA کے ذمہ دارکا ہدایت نامہ آپ نے پڑھ لیا، اس میں مصر کی جگہ پاکستان پڑھ لیجئے اور ذرا توجہ سے ایک بار پھر پڑھ لیں اور پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی، دینی سیاسی جماعتوں کی تقسیم در تقسیم، باہمی چشمک، قبائل میں موجودہ شیعہ سنی فسادات کے محرکات کو سمجھنے میں آپ کو کوئی دقت نہ ہوگی۔ کیا یہ ISIکررہی ہے؟

امریکی میڈیا میں ISI اور پاکستانی طالبان کے خلاف تسلسل کے ساتھ جو کچھ شائع ہو رہا ہے۔ جو'حقائق' دنیاکے سامنے پیش کئے جارہے ہیں ، القاعدہ رہنماؤں کی جو ویڈیو ریکارڈنگ آئے دن سامنے لائی جارہی ہے، یہ سب کچھ FBI, CIA اور MOSAD کی فیکٹریوں میں تیارہوتی ہیں ۔میڈیا مکمل طور پر صیہونیت کے قبضہ میں ہے۔ ملاحظہ فرمائیے امریکی اخبار نویسوں کی مجلس میں ایک امریکی ایڈیٹر جان سہونش کا اظہارِ خیال

''امریکہ میں 'خود مختار میڈیا' نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی اپنی دیانتدارانہ رائے کااظہار نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی کرے گا تو وہ شائع نہ ہوگی۔ مجھے ہر ہفتہ ۲۵ ڈالر صرف اس لئے ملتے ہیں کہ میں اپنے اخبار میں اپنی دیانتدارانہ رائے کااظہار نہ کروں ۔ آپ سب کا یہی حال ہے۔ اگر میں اپنے پرچے میں اس کی اجازت دے دوں تو ۲۴ گھنٹے کے اندر اندر میری ملازمت ختم ہوجائے گی۔ایسا بے وقوف آدمی بہت جلد سڑکوں پر دوسرا کام تلاش کرتا نظر آئے گا۔ نیویارک کے جرنلسٹ کا فرض ہے کہ وہ جھوٹ بولے، جھوٹ لکھے، خبروں کو مسخ کرے، بدزبانی کرے، قارونوں (یہودیوں ) کی چاپلوسی کرے اوراپنی قوم و ملک کو روٹی کی خاطر بیچ کر غلام بن کر رہے۔ ہم پس منظر میں رہنے والے اُمرا کے غلام ہں، ۔ ہمارا ہنر، ہماری زندگی اور ہماری اہلیت ان لوگوں کی پراپرٹی ہے اور ہم ذہنی طوائفیں ہیں ۔''1

بظاہر مذکورہ اقتباس من گھڑت محسوس ہوتا ہے کہ آج امریکی میڈیا پرہرطرف سے اُنگلیاں اُٹھ رہی ہیں ،امریکی اخبارات و جرائد نت نئی پھلجھڑیاں اور شوشے چھوڑ رہے ہیں ۔ نت نئے 'حقائق'سامنے لائے جاتے ہیں ، الزامات لگتے ہیں ، تردیدیں ہوتی ہیں لیکن اس کی تہہ میں کیا ہے؟ اس کے پیچھے نادیدہ ہاتھ کو ن سا ہے؟ خود اُنہی کی زبانی سنئے: یہودی پروٹوکولز کی زبانی، جو پس پردہ رہ کر یہ کھیل رہے ہیں :
''مذکورہ طرز کے طریقہ ہاے کار جو عوام کی نگاہوں سے اوجھل ہوں گے مگر جو یقینی ہیں ، حکومت کے حق میں راے عامہ کو منظم اور مستحکم بنانے میں ہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ مقامِ شکر ہے کہ وقتاً فوقتاً ضرورت کے مطابق یہی طریقے حکومت کی خاص پالیسیوں پر عوام میں ہیجان انگیزی یا سکینت پیداکرنے کا موجب بنتے ہیں ۔ یہ ابھی سچ، ابھی جھوٹ، چھاپنے کی ضرورت پیدا کرتے ہیں ۔''2

'' تیسرے درجے میں اپنے صحافتی حلقوں میں ہم ایسے آزمائشی شوشے چھوڑتے رہیں گے بشرطیکہ ہم اس کی ضرورت محسوس کریں اور پھر اپنے نیم سرکاری اخبارات و رسائل کے ذریعے پوری شدت کے ساتھ ان کی تردید کریں ۔''3

''... ہم کسی شخص کو صحافت کے پیشہ میں آنے کی اجازت ہی اس وقت دیں گے جب ہمارے ریکارڈ میں اس کی دکھتی رگ اور کمزوریاں ہوں گی کہ ان زخموں کو ہم جب چاہیں چھیل دیں گے لہٰذا جب تک راز راز رہے گا، ملک میں صحافی عزت و وقار سے رہے گا۔''4

مذکورہ چاروں اقتباسات کو یکجا کرکے آپ پڑھیں گے تو امریکہ و یورپ کے آزاد پریس کی حقیقت جاننے میں آپ کو کوئی اُلجھن محسوس نہ ہوگی۔امریکی یورپی پریس آئے دن جو تحقیقاتی کالم، جو سروے رپورٹیں اور جو الزامات خصوصاً مسلم دنیا بشمول پاکستان پربڑے شدومد کے ساتھ شائع کرتے ہیں ، اُن کی اصلیت کی تہہ تک پہنچنا بھی مشکل نہ رہے گا۔ یہ رپورٹیں اور ہرطرح کے الزامات کہ پاکستان کی ISI فلاں دھماکے کی خالق ہے، فلاں قضیے کی'ماں ' ہے، قبائلی علاقوں سے ملا عمر، اسامہ بن لادن اور القاعدہ کی قیادت کا ہیڈکوارٹر ہے یااسی نوع کے دیگر الزامات اسی نادیدہ قوت کے تخلیق کردہ ہیں ۔ اسامہ بن لادن، ایمن ظواہری وغیرہ کی طرف سے جاری ہونے والی ویڈیو اور پینٹاگون کی 'تصدیق' کہ یہ اصل میں CIA اور موساد کے مشترکہ ہدایت کار تخلیق کرتے ہیں اور انہی کا میڈیا اسے گلوبل ولیج کے منہ میں ڈالتا ہے۔

امریکہ صدر اور اس کی اسٹیبلشمنٹ صہیونی ہاتھوں میں کھیلنے پر بوجوہ مجبور ہے۔اسرائیل کی سرپرستی اور اسرائیل کے سرمایہ کے زور پر امریکی پالیسیاں بنتی ہیں ۔ اسرائیل امریکہ و یورپ کو کٹھ پتلیوں کی طرح نچاتا ہے ، ملاحظہ کیجئے:
''میں نے کچھ عرصہ قبل جوکچھ لکھا تھا کہ امریکی وزیرخارجہ کولن پاول کے دورئہ مشرقِ وسطیٰ سے اس سوال کی وضاحت ہوجائے گی کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کون کنٹرول کرتاہے؟ امریکہ کے منتخب عوامی نمائندے یاپھر اسرائیل اور امریکہ میں موجود یہودیوں کی مضبوط مؤثر لابی؟ جواب ہمیں مل چکاہے کہ اسرائیل ہی امریکہ اور اس کی خارجہ پالیسی کو کنٹرول کرتاہے۔'' 5

''مسٹر پاول کی کمزوری، ان کی اعصابی ناتوانی اور ان کی بزدلی اسرائیل و فلسطین کے درمیان ایک ایسی جنگ شروع کرنے کا سبب بن سکتی ہے جو ہمارے اندازوں سے کہیں زیادہ خوفناک ہوگی۔مسٹر پاول، صدر بش اور اسرائیل وزیراعظم ایریل شیرون کے ہاتھوں امریکہ کے ساکھ اور اعتبار کا جنازہ اُٹھ چکا ہے۔اب یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے کہ اسرائیل ہی اس خطے میں امریکہ کی خارجہ پالیسی کو کنٹرول کرتاہے۔ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ اسرائیل کے نغمے الاپتاہے۔''6

گلوبل ولیج میں جاری امریکی یورپی جارحیت کس کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے ہے؟اوپر کے دونوں اقتباسات اس پرروشنی ڈال رہے ہیں ۔اس جارحیت کے لئے اسباب و وسائل اور صہیونی قوت پس پردہ رتبے فراہم کرتی ہے۔ اس کے لئے منصوبہ بندی کرتی ہے اور پھر اس منصوبہ بندی کو عالمی سطح پر امریکی سی آئی اے، ایف بی آئی اور اسرائیلی موساد بروے کار لاتی ہے۔ ان تینوں کو موقعہ کی مناسبت سے جہاں مقامی یا نزدیکی دوسری ایجنسیوں کی ضرورت پڑتی ہے، ان کو اپنے منصوبوں کی تکمیل کے لئے ساتھ ملالیتی ہیں ۔ مثلاً بھارت پاکستان کاازلی دشمن ہے، نیا افغانستان پاکستان کادشمن ہے۔ CIA اور MOSAD اس دشمنی سے بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُنہیں استعمال کررہی ہیں کہ پاکستان کے حوالے سے ان چاروں کے مقاصد مشترک ہیں ۔اسلام کے خلاف الکفر ملة واحدة کاعملی ثبوت آج کھلی آنکھوں سے دیکھاجاسکتا ہے۔

RAW, MOSAD, FBI, CIA اور KHAD پاکستان مںة اپنے زرخرید ایجنٹوں کے ذریعے دہشت گردی کرکے طالبان اور القاعدہ کے کھاتے میں ڈال کر اُنہیں بدنام کرتے ہیں ۔ یہودی کنٹرول میں میڈیا اونچے سروں میں اس کا راگ الاپتا ہے جسے عقل کے اندھے تسلیم کرلیتے ہیں ۔ فا عتبروا یا اُولی الابصار!


حوالہ جات
1. بحوالہ' سونے کے مالک'
2. Protocols 12:15
3. Protocols 12:16
4. ایضاً: ص 12: 19
5. Charli Raize."The End of America's Prestigue
6. Robert Fisk, The Independent, London