ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور اہالیانِ پاکستان


ایک اور فردِ جرم اس قوم پر عائد ہوگئی۔ ظلم پر خاموشی او ربے حسی کی ایک اور ایف آئی آر قضا و قدر کے پہرے داروں اور تحریر نویسوں نے درج کرلی۔ کسی کو احساس تک نہیں کہ یہ 'فردِ جرم' سزا کے لئے نہ کسی جیوری کی محتاج ہے اورنہ استغاثہ اور صفائی کے وکیلوں کی۔ وہاں حلف اُٹھا کر جھوٹ نہیں بولا جاسکتا۔ اُس عدالت کا دستور ہی نرالا ہے۔ ہم زبان گنگ کردیں گے اور تمہارے ہاتھ اور پاں تمہارے خلاف گواہی دیں گے۔

یوں تو اس فردِ جرم کی تکمیل امریکہ کے شہر نیویارک کے جنوبی ڈسٹرکٹ کورٹ کی جیوری کے اس فیصلے پر ہوئی جس میں پاکستان کی شہریت رکھنے والی ۳۸سالہ مسلمان، کلمہ گو عافیہ صدیقی کو سات الزامات پر۸۶سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ لیکن اس اجتماعی فردِ جرم کا آغاز ۳۰؍مارچ۲۰۰۳ء کو ہوا۔

ایک خاتون اپنے تین معصوم بچوں: سات سالہ محمد احمد، پانچ سالہ مریم اور ایک سالہ سلیمان کے ہمراہ اُٹھا لی گئی۔ وہ اس وقت آغاخان ہسپتال میں کام کررہی تھی اور کراچی میں اپنے کمسن بچوں کے ساتھ زندگی گزار رہی تھی۔ اگلے دن کے اخباروں میں یہ خبر شائع ہوئی۔ وزارتِ داخلہ کے ترجمان نے اِس کی تصدیق کردی لیکن دو دن بعد حکومت ِپاکستان اور ایف بی آئی امریکہ بیک زبان ہوکر بولے کہ ہمیں عافیہ کے بارے میں کچھ علم نہیں۔ لیکن اس بیان سے ایک دن پہلے ایک شخص ڈاکٹر عافیہ کی والدہ کے گھر گیا۔ اُس نے موٹر سائیکل والا ہیلمٹ پہنا ہوا تھا۔ اُس نے ہیلمٹ نہیں اتارا اور ویسے ہی کھڑے کھڑے ایک بے بس او رمجبور ماں کو اتنا کہا: ''اگر اپنی بیٹی اور نواسوں کی زندگی چاہتے ہو تو زبان بند رکھو۔'' اس کے بعد چند دن کالم آتے رہے او رپھر اس قوم پربے حسی کی خاموشی چھا گئی۔ نہ کسی کی آنکھ سے آنسو ٹپکے، نہ دل سے آہ نکلی کہ ان تین معصوم بچوں کا کیا قصور ہے جن کے پیاروں کو ان کاکچھ اتہ پتہ معلوم نہیں کہ وہ کس حال میں ہیں؟

اس خاتون کے اُٹھائے جانے کے تین ماہ بعد۲۳جون۲۰۰۳ء کو 'نیوز وِیک' میں ایک رپورٹ شائع ہوئی کہ ڈاکٹر عافیہ کا القاعدہ کیساتھ تعلق ہے اور وہ ایف بی آئی کے پاس ہے۔ اگلے سال یعنی ۲۰۰۴ء میں ایف بی آئی کے ڈائریکٹر رابرٹ ملر نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے پوچھ گچھ کی جارہی ہے، اس کے بعد ایک طویل خاموشی رہی۔ کچھ اَتہ پتہ اس وقت چلا جب پاکستانی معظم بیگ جو برطانوی شہری بھی تھا اورجسے مشرف نے اسلام آباد سے گرفتار کرکے امریکہ کے ہاتھ بیچا تھا، وہ جب برطانوی حکومت کی کوشش سے گوانتا موبے سے رہا ہوا ، تو اس نے بتایا کہ جب بگرام جیل میں اس پر تشدد کیا جاتاتھا تو اسے قید خانے میں ایک عورت کے چیخنے چلانے اور مدد کیلئے پکارنے کی صدائیں آتی تھیں اور یوں لگتا تھا کہ اُس پربہت شدید تشدد کیا جارہا ہو۔ بعد میں دیگر رہا ہونے والے قیدیوں نے بھی اس کی تصدیق کی کہ اس خاتون کو قیدی نمبر ۶۵۰کے نام سے پکارا جاتا ہے او رکبھی کبھی اسے Grey Ladyبھی کہا جاتا ہے۔ انٹیلی جنس کی زبان میں بلیک اس کو کہتے ہیں جس پر جرم ثابت ہو، وائٹ اس کو کہتے ہیں جس پر کوئی جرم ثابت نہ ہو، لیکن گرے مشکوک کو کہتے ہیں۔

پاکستانی قوم کی یہ کلمہ گو بیٹی اپنی تین معصوم بچوں کے ساتھ لاپتہ تھی اور ہم سب اپنی خواب گاہوں میں اپنے پیارے معصوم بچوں کو سینوں سے لپٹائے مزے کی نیند سورہے تھے۔ لیکن افغانستان میں طالبان کی قید میں ان کے اخلاق سے متاثر ہوکر اسلام کرنے والی برطانوی صحافی خاتون ایوان رڈلی نے اس خاتون کا پتہ لگانے کی کوشش کی کہ وہ کون ہے؟ اس پر یہ ظلم کیوں ڈھایا جارہا ہے؟ وہ ان چار عرب باشندوں سے ملی جو بگرام جیل سے بھاگے تھے۔ اُنہوں نے خاتون کا حلیہ بھی بتایا او ریہ بھی کہا کہ اس پر اتنا تشدد ہوتا تھا کہ چیخوں کی وجہ سے کئی کئی راتوں سو نہیں سکتے تھے۔ تمام شواہد اکٹھے کرنے کے بعد یہ نومسلم برطانوی صحافی سراپا احتجاج بن گئی اور فوراً پاکستان آگئی کہ اس خوابیدہ قوم کی غیرت پر سوال کرے۔ اس نے عمران خان کے ساتھ ۷جولائی ۲۰۰۸ء کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ قیدی نمبر ۶۵۰ ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہے اور اس پر مظالم کی وہ داستانیں سنائیں کہ روح کانپ اُٹھے۔ اسے بدترین جسمانی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس پریس کانفرنس میں برطانوی رکن پارلیمنٹ جارج گیلوے کا بیان بھی پڑھ کر سنایا گیا۔ ایوان رڈلی نے کہا میں تو ایک نو مسلم ہوں، مجھے اسلام کی حقانیت کا علم ہے۔ میں تو تصور بھی نہیں کرسکتی کہ کوئی مسلمان اپنی بہن کو غیرمسلموں کے حوالے کردے کہ وہ اسے جسمانی، ذہنی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنائیں۔ سولہ کروڑ لوگوں کے مقابلے میں اس ایک مسلمان برطانوی خاتون کی آواز زیادہ گرج دار، زیادہ جذباتی او رزیادہ ایمان افروز تھی۔

اب تک اس خاتون اور تین معصوم بچوں کو امریکیوں کے ہاتھ فروخت کئے ہوئے پانچ سال ہوچکے تھے اور اس قوم کی بے حسی اور خاموشی کو بھی اتنے ہی دن گذر چکے تھے۔ اس پریس کانفرنس کے بعد گیارہ جولائی کو کرنل رولی نیلسن گرین نے پھر ایک جھوٹ بولا کہ بگرام جیل میں کوئی عورت نہیں ہے۔ ادھر ایوان رڈلی شواہد کے ساتھ میدان میں تھی۔ اب ۴؍اگست ۲۰۰۸ء کو اعلان کیا گیا کہ عافیہ صدیقی کو ۱۷؍جولائی کو غزنی میں افغان پولیس نے اس وقت گرفتار کیا جب وہ امریکی سپاہیوں سے ان کی بندوق چھین کر ان پر حملہ کرنے کی کوشش میں زخمی ہوگئی تھی۔ حملہ آور زخمی ہوگئی اور امریکی سپاہیوں کو خراش تک نہ آئی۔

اسے امریکیوں کو قتل کرنے کی کوشش کرنے کے جرم میں امریکہ منتقل کیا گیا اور پھر نیویارک کے جنوبی ڈسٹرکٹ کی عدالت میں مقدمہ چلا، سزا سنائی گئی تو اس کی وکیل اور ترجمان ٹینا فوسٹر نے اتنا کہا کہ عافیہ کو سزا صرف اور صرف پاکستانی حکومت کی بے حسی، لاپرواہی اور بے اعتنائی کی وجہ سے ہوئی۔ ہمارے اوپر بحیثیت ِقوم لگنے والی فردِ جرم مکمل ہوگئی۔ سب کے اعضاکل اس کے خلاف گواہی دیں گے: جس نے بیچا،جس نے جھوٹ بولا، جس کو اس ظلم کا علم تھا اور مجرمانہ خاموشی کا شکار رہا، سب اپنی اپنی فردِ جرم پر کیا جواب دیں گے۔ یہ معاملہ ان کا اور ان کے اللہ کا ہے!!

لیکن میراسر شرم سے اس لئے جھکتا ہے کہ میں بھی اس مملکت ِخداداد پاکستان کا شہری ہوں جس کے حکمرانوں میں فلپائن جیسے امریکی امداد پر پلنے والے ملک جتنی بھی غیرت نہیں۔جس ملک کا ایک ڈرائیور اینجلووڈی لاکروز عراق جنگ کے شروع میں اغوا ہوا تھا اور اغوا کاروں نے مطالبہ کیا تھا کہ عراق سے اپنی فوجیں واپس بلاؤ تو فلپائن جو سو سال سے امریکہ کا دست ِنگر تھا، اُس نے امریکہ کی اس دوستی پر لعنت بھیجتے ہوئے اپنی فوجیں عراق سے واپس بلا لی تھیں اور اس حکومت کے ترجمان نے کہا تھا: ''یہ ایک ڈرائیور نہیں، فلپائن کے ہر جیتے جاگتے انسان کا استعارہ ہے۔''

ہم ان بے حس حکمرانوں کے دور میں بھی زندہ رہے جن سے برطانوی حکومت ایک پاکستان برطانوی شہری مرز ا طاہر حسین کو پرویز مشرف سے چھین کر لے جاتی ہے جسے ایک ٹیکسی ڈرائیور کے قتل میں موت کی سزا ہوچکی ہوتی ہے اورکہتی ہے کہ ہم اپنے شہری کو پھانسی نہیں ہونے دیں گے خواہ وہ مسلمان اور پاکستانی کیوں نہ ہو۔

اس قوم کی حالت ِزار کی طرف دیکھتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے، جہاں مختاراں مائی کے لئے سڑکیں، شہر اور میڈیا سب احتجاج کرتے ہیں اور عافیہ صدیقی پر ساری انسانی حقوق کی ترجمانی کرتی انجمنوں کو چپ لگ جاتی ہے، سانپ سونگھ جاتا ہے۔ آئیے اس فردِ جرم کے بارے میں ذرا جان لیں جو ہم پر لگ چکی۔ اللہ فرماتے ہیں اور حدیث ِقدسی میں درج ہے کہ

''جس نے ایک آزاد مسلمان کو کسی غیر کے ہاتھ بیچا، میں قیامت کے دن خود اس کے خلاف مدعی ہوں گا۔ '' (صحیح بخاری:۲۲۷۰)

پھر بھی ہم یہ سوال کرتے ہیں، ہم پر عذاب کیوں نازل ہوتے ہیں، ہماری حالت کیوں نہیں بدلتی، ہم دربدر اور رسوا کیوں ہیں؟ جن قوموں میں ایسے مجرم حکمران دندناتے پھریں، اس طرح کے ظلم پر بے حسی اور خاموشی طاری رہے، ظلم کرنے والوں کے وکیل گلی گلی، محلے محلے موجود ہوں اور چاہنے والوں کے گروہ در گروہ بھی، ان کے نقش قدم پرچلنے والوں کو اپنے ووٹوں سے جس ملک کی اکثریت اپنی محبتوں سے اقتدار پر سرفراز کرے، وہاں سے رحمتیں روٹھ جاتیں ہیں اور غیض و غضب کی صدائیں گونجنے لگتی ہیں۔

(اوریا مقبول جان)

...٭ ٭...