اکتوبر 2021ء

روپڑی ؍مدنی خاندان کے فکر و عمل کے امتیازات

(شیخ التفسیر   حافظ محمد حسین امرتسری ... کے تسلسل میں )            ترتیب: ڈاکٹر حافظ حسن مدنی

چونکہ ’فرقہ بندی ‘حق و باطل کی بجائے  بغْياً بينهم  کی بنیاد پر پروان چڑھتی ہے، اس لئے ’تحریک اہل حدیث‘کا تاریخی ارتقاء  ہمیشہ دو پہلووں پر ’ مدّ وجزر ‘ کا شکار  رہا کہ اہل حدیث ایک’ فرقہ‘ ہے یا اجتہاد وتحقیق کا نمائندہ   ’ مکتب فکر ‘ ۔والد محترم   کئی دفعہ اپنے دروس میں حضرت مولانا عطاءاللہ حنیف کے حوالے سے ذکر  کرچکے ہیں کہ ’نقطہ نظر ‘ کا یہی اختلاف مولانا داؤد غزنوی  اور مولانا محمد اسماعیل سلفی  کے درمیان رہتا ۔ اسی بناء پر برصغیر   میں اہل حدیث علماء کی بہت بڑی تعداد ’جامد مقلدین ‘ سے الگ ہونے کے باوجود ’اہل حدیث ‘ نام سے نمایاں نہیں ہوئی جن میں مولانا ابوالکلام آزاد  کا ایک وسیع حلقہ ، قصوری خاندان وغیرہ شامل ہیں ۔ دادا گرامی  کی سوچ بھی تقریبا یہی تھی جس کا اظہار وہ گروھی ’ تنظیم سازی‘ کی موقع پر کرتے ۔ ان کے مناظرے   بھی صرف تحقیقی مقصد سے ہوتے ۔ قارئین اہل سنت کی فرقہ بندی اور روپڑی ثنائی اختلافات کو اسی نظر سے دیکھیں۔

چونکہ’ردّ تقلید  کی تحریک ‘میں مخصوص فقہی مسائل کی مثالیں سامنے آتی ہیں لہذا ایسی صورتحال وقت کی ضرورت تھی   کہ فرقہ وارانہ فضا میں امتیازی مسائل کے بارے حق و باطل کی  طرح معرکہ آرائی ہو۔

ہمارے خاندان کا ذوق علمی اور دعوتی میدانوں میں بہت نمایاں تھا ، جس کی وجہ سے عبادات کے علاوہ اہل حدیث کے  تنظیمی مسائل پر بھی  کافی لٹریچر تیار ہوا ۔اتفاق دیکھیے کہ مقلدین اس میدان میں بہت پیچھے رہے جبکہ اہل حدیث میں ’شرعی نظام‘ کے حوالے سے’ غرباء اہل حدیث‘ اور ’تنظیم اہل حدیث ‘وغیرہ کا وجود ان کی بیداری کا ثبوت ہے ۔مسلکی مسائل پر علمی مباحثوں  اور علمائے اہل حدیث کے باہمی اختلافات کے باوجود اکابر علمائے اہل حدیث کے ہاں’  محدث روپڑی‘                                     کا علمی مقام و مرتبہ ہمیشہ  مسلّمہ رہا    ،تاہم   میں ان اختلافات کا  پس منظر  پہلے بیان کرنا مناسب سمجھتا ہوں ۔

شیخ الاسلام مولانا ثناءاللہ امرتسری  اور غزنوی خاندان

شیخ الاسلام  کی طرف سے عقیدہ کے مسائل میں تاویل کے با رے میں مولانا صفی الرحمن مبارکپوری   یوں عذر پیش کرتے ہیں : چونکہ مولانا ثناءاللہ امرتسری نے عقیدہ صرف ’علمائے دیوبند‘ سے سیکھا لہذا وہ اشعری، ماتریدی  اندازِ تاویل کو ہی صحیح او رحق گمان کرتے تھے لہذا اسی عقیدہ کو مضبوطی سے تھام لیا جبکہ سلفی علماء کی صفوں میں یہ اندازِ فکر   معروف نہ تھا[1]،کیونکہ شیخ الکل فی لکل سید نذیر  حسین دہلوی اور ان کے اکابر تلامذہ  دورس حدیث میں ہی’ سلفی عقیدہ ‘سےکافی  حد تک واقفیت  حاصل  کر لیتے جن میں بعض سعودی اکابر  شیخ سعد بن عتیق  جیسے شاگرد بھی شامل ہیں ۔

پنجاب میں غزنوی علما ءسلفی عقیدہ کے بارے میں بڑے حساس تھے [2](واضح رہے کہ برصغیر پاک و ہند میں پہلی دفعہ شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ  کی ’ الحموية‘ نامی کتاب غزنوی مدرسہ ۔ امرتسر  میں داخل نصاب رہی)  چنانچہ  مولانا عبدالحق غزنوی نے ان کی ’تفسیر القرآن بکلام الرحمن‘ کے    چالیس مقامات پر شدید تنقید کی حامل کتاب شائع کر دی، جس پر غزنوی  اور ثنائی نزاع نے شہرت پائی حتی کہ یہ معاملہ جلالۃ الملک عبدالعزیز  آل سعود تک جا پہنچا تو انہوں نے اپنے چیف جسٹس شیخ  عبداللہ بن بُليہد  کے ہمراہ ’حج‘ کے موقع پر موجود عالمی شہرت رکھنے والے سلفی علماء کو جمع کیا اور اس اجتماع میں مولانا عبدالواحد غزنوی  اور مولانا ثناءاللہ امرتسری  کا اختلافی موقف تفصیل سے سنا  گیا، جس کے بعد 27   ؍ذی الحجہ 1344 ھ کو باہمی ’صلح نامہ‘ تیار کیا گیا کہ مولانا ثناءاللہ امرتسری  نے اسماء وصفات الہی کی تاویلات سے رجوع کر کے ’سلفی موقف‘ کو ’حق‘ تسلیم کر لیا ہے اور  اپنے آپ کو اس امر کا پابند بنایا ہے کہ وہ اپنی متنازعہ تفسیر و تاویل میں تحریراً  تصحیحات شائع کر یں گے، جبکہ مولاناعبدالواحد غزنوی  اور ان کے رفقاء ’اربعین غزنوی‘ کو جلا دیں گے[3]۔

چونکہ محدث روپڑی  ،غزنوی خاندان کے شاگرد اور نمایاں ترجمان تھے لہذا شیخ الاسلام   سے ’محدث  روپڑی        ‘کا مطالبہ صرف یہ رہا کہ سلفی عقیدہ کے خلاف جو تاویلات اسی طرح موجود ہیں ان کی تصحیح شیخ الاسلام  کی طرف سے شائع ہونی چاہیے۔جیسا کہ ارشاد ربانی:

﴿إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَبَيَّنُوا فَأُولَئِكَ أَتُوبُ عَلَيْهِمْ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيمُ﴾ [4]

ترجمہ: مگر وہ جنہوں نے (حق پر پردہ ڈالنے سے) توبہ کی، اپنی اصلاح کر لی اور (حق بات کو)  واضح  کر دیا،یہ وہ ہیں جن کی میں توبہ قبول کرتا ہوں  (انہیں معافی دیتا ہوں  )  کیونکہ میں بہت  توبہ قبول کرنے والا اور نہایت   مہربان   ہوں۔   

والد گرامی  کہتے ہیں کہ میں نے ہمیشہ  اپنے تایا زاد  مربّی (بہنوئی )حافظ محمد اسمٰعیل روپڑی  کے روادارانہ  رویہ کو پسند کیا ہے  ۔ تاہم فکری تاریخ کو درست رکھنا بھی ضروری ہے ، اگرچہ مجھے علمی مسائل میں ’عوام کی دھڑے بندی‘ ہر گز پسند نہیں ، اسی لئے میں فتویٰ بازی میں نہیں پڑنا چاہتا ۔ شخصیات کی اختلافی بحثوں کو علماءتک محدود رہنا چاہیے بلکہ بقول حضرت علی ؓ :   اعرف الحق،تعرف الرجال (حق کی پہچان رکھ، شخصیات کی پہچان خود بخود ہو جائیگی)تاہم اہل علم کے رویوں میں ’مزاج‘ کا بڑا دخل ہوتا ہے۔اس سلسلہ میں انہوں نے حافظ عبدالرءوف  صاحب سندھو کو  ان کے دادا گرامی مولانا محمد اشرف سندھو  سے    ایک  حکایت  سنائی   جو اس طرح ہے :

ان کے دادا گرامی مولانا محمد اشرف سندھو  (صاحب نتائج  التقلید وغیرہ )نے بیت اللہ میں ایک بار دیکھا کہ محدث روپڑی مولانا ثناءاللہ امرتسری کے  لئے رقت آمیز دعائیں کر رہے ہیں تو انہوں نے اپنے استاذ گرامی ’محدث روپڑی ‘  سے  کہا کہ آپ ایسے بزرگ کے لئے دست بدعا ہیں جن کے عقیدہ کے بارے میں آپ شدید ناقد  ہیں  تو محدث روپڑی   فرمانے لگے کہ میں اسی لئے انکی مغفرت کے لئے ’ دعا گو‘ ہوں۔ یہ ہے ہمارے اسلاف کا اخلاص، جس سے ہمیں سبق سیکھنا چاہیے ۔

میں نے والد محترم سے ایک سوال کیا کہ کئی علمائے اہل حدیث  (بھارت) ’محدث روپڑی‘ سے  نالاں ہیں؟جواباً اس کی وجہ والد محترم نے یہ بتائی  کہ یہاں اصل مسئلہ’ عقیدے  وغیرہ ‘ کا نہیں ہے بلکہ اس کی ایک اہم وجہ  رحمانیہ(دھلی) کی انتظامی صورتحال  ہے ۔ چونکہ رحمانیہ کا بانی مبانی شیخ خاندان مالی طور پر ’رحمانیہ‘کا خود کفیل تھا ، انہوں نے شیخ الکل فی الکل سیّد نذیر حسین دھلوی کے شاگرد اکابر  علمائے اہل حدیث کی مشاورت سے محدث روپڑی کو نصاب و امتحان کے کلی اختیارات دے رکھے تھے جبکہ رحمانیہ کے صدر مدرس سمیت عام اساتذہ پر یہ پابندی تھی کہ  وہ محدث روپڑی (بڑے میاں )سے امتحانات کے دوران ملیں ،اس کی زَد محدث روپڑی  پر پڑتی ۔ انسانی مزاج یہ  ہے کہ جب کوئی وجہ ناگواری کی موجود ہو تو دوسرے کئی پہلو بھی نکل آتے ہیں ، خصوصاً جب پنجاب میں جماعتی نظم  ’ تنظیم اہل حدیث ‘ کے نام سے(   1932 ءمیں )معرض ِ وجود میں آیا تو مولانا ثناءاللہ امرتسری  کی آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس بھی فعّال ہو گئی ۔ واضح رہے کہ دعوت  مناظرہ کے میدان میں مولانا امرتسری  ’شیخ الاسلام‘ تھے اور محدث روپڑی کا عمر  و تجربہ  کے اعتبار سے ابھی ابتدائی دور تھا،چنانچہ بھارت کےعام علماء پنجاب  کی ’تنظیم اہلحدیث‘ اور استقلالِ پاکستان ( 1947ء) کے بعد ’جمعیت اہل حدیث‘ اور ’جماعت اہل حدیث ‘کے شرعی نظام (صدارت یا امارت[5] )کی اختلافی باریکیوں سے بھی زیادہ واقف  نہیں  کیونکہ ہفت روزہ ’تنظیم اہل حدیث‘  بھی 1947 ء تا 1959 ء بند رہا جبکہ جمعیت اہل حدیث  (مغربی پاکستان) کے ترجمان ’الاعتصام‘ وغیرہ برابر شائع ہوتے رہے ۔

والد محترم کہتے ہیں کہ میں نے بھارتی علمائے اہل  حدیث سے اپنے تعلقات ہمیشہ خوشگوار     رکھے  لیکن میں  1947  ءکے بعد ایک مرتبہ بھی بھارت نہ جا سکا ۔ ہمارے خاندانی   ’جامعہ اہل حدیث ‘ کا مقام تو سعودی حکمرانوں یا علماء کی نظروں میں کوئی نمایاں حیثیت کا حامل نہیں رہا ،البتہ ہمارے’ جامعہ لاہور الاسلامیہ‘  کا مقام تو عالمی سطح پر بہت بلند و بالا ہے ۔ چونکہ میری ’مدنی‘ نسبت خاندان  کی بجائے ’روحانی ‘ ہے  ، اس لئے روپڑی کہلانے والے حضرات کو میری شہرت کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔میرے بھتیجوں حافظ عبدالغفار ،حافظ عبدالوہاب کی قربت خونی  تو ہے لیکن میں مذہبی تنظیم سازی یا میکیاولی سیاست کے گورکھ دھندوں سے نالاں ہوں ، اس لئے جب بھی

  مل جل کر علمی اور دعوتی کاموں کو یکساں کرنے کی بات ہوئی تو سیاسی سرگرمیاں ہی رکاوٹ بنیں۔

ہمارے تین بزرگ (حافظ محمد حسین امرتسری ،حافظ عبداللہ روپڑی اور حافظ محمد اسمٰعیل روپڑی ) سیاسی ذہن نہ رکھتے تھے کیونکہ مذھبی جماعتوں کی سیاست ساتویں دہائی میں ابھری جبکہ یہ تینوں بزرگ اس  سے  بہت  پہلے وفات پا چکے تھے ۔ میرے برادر بزرگ حافظ عبدالقادر روپڑی سیاسی ذھن بھی رکھتے تھے لیکن میں ’شریعت بل‘ اور ’متحدہ شریعت محاذ ‘ میں  تو بھر پور انکا ساتھ دیتا رہا مگر ’جمہوری پارٹی‘ کی سیاست میں انکا       ہمنوا نہیں بن سکا۔

    1857  ء کی جنگ آزادی تو برطانوی سامراج نے کچل دی تھی  ، لہذا انیسویں صدی کے اختتام تک تو سیکولرزم ہی چھایا رہا البتہ بیسویں صدی کی ابتداء سے بیداری کی بعض تحریکوں نے جنم لیا تو تحریک ِ خلافت اور تَرکِ موالات جیسی سرگرمیاں بھی سامنے آئیں جو استقلال پاکستان پر  منتج  ہوئیں ۔ ہمارے بزرگوں کی بھر پور توجہ علم و دعوت کی طرف رہی لیکن فرقہ ورانہ  فضا میں جعلی نبوت  اور عیسائیت وغیرہ کی مشنری سرگرمیوں میں مسلمان فرقوں کی مناظرہ بازی کو بھی عروج مل گیا جس نے تقسیم در تقسیم گروہوں کی شکل  اختیار کر لی۔       

پنجاب میں اہل حدیث کی  تنظیم  سازی

جب جماعت سازی کا تصور برطانوی سامراج کے خلاف ابھرا تو  اہل حدیث  علماء  ’جماعۃ المجاہدین ‘کی نہج پر غور و فکر  کی طرف مائل ہوئے ، کیونکہ برطانوی سامراج کے لادین نظام (Seqularism) کے بالمقابل ان کا تصور سارے برصغیر کو منظم کرنے کا تھا ۔ اگرچہ بعد میں ان کا اختلاف اس امر پر ہوا کہ ایسی جماعت امامت کبریٰ (خلافت) کے اختیارات کی حامل ہو  گی یا چھوٹے نظم (امامت صغریٰ) کی طرح ہو گی ۔ اول الذکر گروہ  نے امامت کبریٰ کے تصور سے ’جماعت غرباء اہل حدیث‘ بنائی جبکہ محدث روپڑی    کا   تصور’امارت صغریٰ‘  کا تھا،اس لئے شرعی  نظم کے مطابق  1932ء میں ’تنظیم اہل حدیث ‘   معرضِ وجود میں آئی  ،لیکن استقلالِ  پاکستان کے بعد جمہوری سیاسی پارٹیوں کے نظریات کے مطابق جب مولانا داؤد غزنوی  اور ان کے سیاسی رفقاء نے ’جمعیت اہل حدیث ‘کے نام سے ایک سیاسی پارٹی بنائی تو  سوال پیدا ہوا کہ اب ایسی تنظیموں کی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں باضابطہ مسلمان  حکومت  کے بالمقابل کیا حیثیت ہے ؟مولانا داود غزنوی  جو ’خلافت ِ عثمانیہ‘ کی حمایت میں برصغیر کی سیاست میں بھی  سر گرم رہے، انہوں نے مسلم لیگ کی بجائے  بظاہرمسلکی تنظیم’ جمعیت اہل حدیث‘ کے نام سے بنائی لیکن اس کا ’نظام ‘  عام سیاسی جماعتوں کی طرز پر تھا، تا کہ مسلکی عوامی طاقت کے ذریعے اقتدار یا کم از کم سیاسی پریشراستعمال کرنے کی پوزیشن میں ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں شرعی نظام کی بحث ہی فضول تھی ۔ ’جمعیت اہل حدیث‘ پہلے تو اہل حدیث مبلغین کے ذریعے مسلک کی تبلیغ و دعوت کا کام بھی کرتی تھی لیکن  1970  ءکے بعد جب تمام مسالک اپنی تنظیموں کے ذریعے ملکی سیاست میں آ گئے تو اصل مسئلہ ’اقتدار‘بن گیا ۔ سیاسی پارٹیاں  جس طرح اقتدار کےلئے ’میکیاولی سیاست ‘ کرتی ہیں وہی جوڑ توڑ مسلکی جماعتوں میں بھی در آیا ۔ مقلدین کے ہاں تو ’شخصیت پرستی ‘ کی وجہ سے زیادہ حصے بکھرے نہیں ہوئے لیکن عوام  ’اہل حدیث‘ غیر مقلد ہونے کی بناء پر کسی  اجتماعی  نظم  کے  بھی پابند نہیں ہو تے ۔

’جمعیت‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا اردو ترجمہ  ’ انجمن‘ ہے ۔  جدیدمعاشرتی علوم میں’  انجمن ‘ علمی، تحقیقی،رفاھی وغیرہ سماجی اداروں کی صورت بنائی جاتی ہے  جبکہ  ’جمعیت اہل حدیث ‘ سیاسی پارٹی  کے طور پر ’الیکشن کمیشن ‘میں باضابطہ  رجسٹرڈ ہے ،اسی لئے مسلک  سے زیادہ اقتدار کے حوالے سے اس کے مختلف دھڑے بنتے رہتے ہیں جنہیں جماعتی نظم اور سیاسی قوت کے لئے  کئی بار اکھٹا کرنے کی کوششیں ہوئیں ، تو   محترم علامہ احسان الہی ظہیر کی شہادت کے بعد) پہلی دفعہ پانچوں اہلحدیث تنظیمیں متحد ہو گئیں تو ان کا نام ’آل پاکستان اہل حدیث اتحاد کونسل‘(مجلس اتحاد أهل الحديث باكستان)  طے پایا ،جس کے باضابطہ   نظم کے تحت مولانا معین الدین لکھوی   دو سال کے لئے پہلے امیر اور ان کے بعد حافظ عبدالقادر روپڑی امیر بنائے گئے ، جبکہ والد محترم عملی طور پر ہمیشہ  ’معتمد ‘ رہے  لیکن جب پانچوں تنظیموں کے نمائندہ وفد (جس میں والد محترم بھی شامل تھے) نے میاں نواز شریف  برادران  سے ملاقات میں یہ باور کر ا دیا کہ ہم تمام اہل حدیث دھڑے  ایک  ہو کر  سیاست میں آپ کے لئے کام کریں گےاور اسی بنا پر  جمعیت اہل حدیث (میاں فضل حق گروپ)پہلے  پروفیسر ساجد میر کے لئے سینٹ میں اور میاں عبدالرزاق  کے لئے صوبائی اسمبلی میں دو سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا رہا   اور اب  انہیں سینٹ میں دوسیٹیں ملی ہوئی ہیں  لیکن والد محترم تیس  پنتیس سال سے    کئی بار      پروفیسر ساجد میر  صاحب کو  اہل حدیث اتحاد کونسل کے  پلیٹ فارم سے  اکٹھا رکھنے کے لئے   باضابطہ اجتماعات بلانے پر زور دیتے رہے ہیں  لیکن  پروفیسر صاحب ہمیشہ کنی کتراتے   ہیں[6] حالانکہ  اہل حدیث کے تمام دھڑے منتشر ہیں..........  وإلى الله المشتكى

پاکستان میں اہل حدیث کی الجھن   یہ ہے کہ اہل حدیث کی تعداد  حنفی فرقوں کے مقابلہ میں بہت  کم ہے جبکہ  انکی کئی تنظیمیں بھی ہیں ، لہذا جب وہ انتخاب لڑتے ہیں تو کسی بڑی جماعت (مسلم لیگ وغیرہ) کا دُم چھلہ بن کر ایک دو سیٹیں حاصل کر لیتے ہیں لیکن اپنی عوامی اہل حدیث طاقت سے جمہوری  انتخاب  میں ان کے کھڑے ہونے کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔روپڑی جماعت اہل حدیث کا دعوی تو تھا کہ ہم شرعی نظم رکھنے کی وجہ سے کسی دوسری تنظیم میں شامل نہیں ہو سکتے لیکن   اس جماعت کے ذمہ داران  اب کسی شرعی نظم کا دعوی ہی نہیں رکھتے ،بلکہ انہیں ایسے شرعی نظم کے  مبادیات  کا بھی علم نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہم ’مدنی‘ کہلانے والے تعلم و تحقیق کے کاموں کے لئے وقف ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اخلاص کی توفیق دے ۔آمین

محدث روپڑی اور مولانا ثناءاللہ امرتسری

والد گرامی نے بتایا کہ مولانا ثناءاللہ امرتسری  اور محدث روپڑی  کے مابین عقیدہ کے کئی مسائل میں علمی اختلافات تھے ، جن  کا آغاز در اصل مولانا محمد حسین  بٹالوی   اور غزنوی علماء سے ہوا تھا  اور علمائے غزنویہ میں سے مولانا عبدالحق غزنوی نے اربعین غزنوی لکھ کر مولانا امرتسری  کی تفسیری کوتاہیوں کی نشاندہی کی ۔ چونکہ مولانا  محمد حسین بٹالوی  اور مولانا عبدالجبار غزنوی  دونوں محدث روپڑی  کے علمی رہنما تھے ، جیسا کہ مولانا بٹالوی نے ہی تحصیل علم کے  بعد 1915ء میں محدث روپڑی  کو ’روپڑ ‘ میں تعلیمی اور تبلیغی کا م کرنے کی ہدایت کی تھی۔

 دادا گرامی  میاں روشن دین  نے  مولانا محمد حسین بٹالوی سے دوستانہ  تعلقات کی بنا پر ہی ہمارے دادا کا نام ’محمد حسین‘  رکھا تھا  اسی طرح دادا گرامی حافظ محمد حسین امرتسری کے  حسن و جمال اور علم و فضل کی وجاہت سے متاثر ہو کر ، مولانا  محمد اسحاق بھٹی نے اپنے چھوٹے بھائی  محمد الیاس کا نا م ’محمد حسین ‘رکھوایا جس کی تفصیل ان کی کتاب ’ دبستان ِحدیث ‘ میں موجود ہے ۔

اِن دونوں بزرگوں کے ناطے محدث روپڑی نے اس علمی وراثت کو نبھایا ۔  محدث روپڑی  کے علم و فضل اور تقویٰ کا اکابر علمائے اہل حدیث بڑا دھیان رکھتے ، جس کی ایک مثال مولانا حافظ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی  ہیں جو عملاً مولانا ثناءاللہ امرتسری  کے زندگی بھر ساتھی رہے لیکن مرض الموت میں یہ وصیت کر گئے کہ میرا جنازہ محدث روپڑی پڑھائیں ۔ چنانچہ 1954ء میں انکی رحلت پر محدث روپڑی نے ہی سیالکوٹ پہنچ کر ان کی نمازِ جنازہ  پڑھائی  ۔

محدث روپڑی نے فارغ التحصیل ہوتے ہی مولانا ثناءاللہ امرتسری  کی تفسیر ِ صحابہ کے موقف پر تنقیدی کتاب ’درایتِ تفسیری ‘ لکھی ، جسے دادا گرامی  شیخ التفسیر حافظ محمد حسین امرتسری بہت سراہتے   ۔ ہمارے محترم والد ڈاکٹر  حافظ عبدالرحمن  مدنی مدظلہ العالی نے مجھے(ڈاکٹر حافظ حسن مدنی ) اور برادران ِ عزیز ڈاکٹر حافظ انس نضر اور  ڈاکٹر حافظ حمزہ مدنی کو بارہا کہا کہ اس کتاب کو امام بخاری   کے  بعض الناس کی طرح یوں ترتیب دو  کہ اس سے  ’ ثنائی روپڑی نزاع [7]‘ نکل جائے اور صرف علمی مسائل ہی باقی رہ جائیں ۔ برادرِ عزیز نے کئی مرتبہ یہ کتاب سبقاً سبقاً پڑھائی ہے ، ان شاءاللہ وہ وقت بھی آئے گا  جب والدِ محترم کی اس مبارک خواہش کو پورا کرنے کی اللہ کریم ہم بھائیوں کو توفیق دے گا ۔آمین

                   علمی مباحثے

  • دادا جان نے  اپنے بڑے بھائی کی طرح عربی متون اور زبان کے علوم (صرف و نحو اور بلاغت وغیرہ) مشہور  امام ِفن(   اہل حدیث ادیب )مولانا  محمد سورتی   سے پڑھے اور ساتھ ہی کئی سال انکے بچوں کو بھی پڑھایا ۔ یہی وجہ ہے کہ  وہ منظم مزاج ہونے کی بناپر اپنی گفتگو اور مناقشوں میں اصول و قواعد کا زیادہ   دھیان  رکھتے تھے ۔ ان کا بیان وخطابت بھی موضوع پر رہتے ہوئے    زور دار ہوتا ۔

ہم پہلے قادیانیوں سے انکے ایک مناظرے کی روئیدداد ذکر کرتے ہیں ، یہ مناظرہ ’پشاور ٗ میں ہوا  اور موضوع حیاۃ و مماۃ   مسیح          ؑ تھا ، انہوں نے اپنی پہلی دلیل قرآن کریم کی    وہی آیت بنائی جو قادیانی اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لئے  اہم دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں ، چنانچہ انہوں نے عربی قواعد کے مطابق   اسکا صحیح ترجمہ یوں  کیا:

﴿إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ﴾(سورة بقرة:55)

 جب الله تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ؑ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :اے عیسیٰ  ؑ !میں پورے جسم و جان  سمیت تمہیں اپنی طرف اٹھانے والا ہوں   انہوں نے  لفظ   رَافِعُكَ اور حرف جار إ ِلَيَّ پر زور دیتے ہوئے کہا : اللہ تعالیٰ کا عیسی ؑ کو جسم و جان سمیت اپنی طرف  اٹھانا ‘ ہی مسلمانوں کا عقیدہ ہے وغیرہ وغیرہ۔قادیانی مناظر اس اندازِ حجت سے ناواقف تھا ، اس نے ادھر اُدھر کی باتیں کر کے منتشر  تاویلوں کی  کوشش کی لیکن دادا گرامی نے اپنی باری پر پھر یہی دلیل مزید وضاحت سے پیش کرتے ہوئے کہا کہ پہلے اس آیت کریمہ کا جواب دو ، پھر دوسری بات سنی جائیگی۔آخر کار وہ لاجواب ہو گیا اس پر اسکے ساتھیوں نے ’بہن کی گندی گالی  دیکر‘ اسے کہا کہ میدان میں آ کر گھوڑے کو دانہ دیتے ہو !

جامد مقلدین حنفیہ سے مناظرہ

  • یہ مناظرہ شیخ الحدیث مولانا محمد ادریس کاندھلوی  کی صدارت میں ہوا تھا اور ’حنفیہ‘ کی طرف سے ان کے مایہ ناز عالم (مدرس) مناظر تھے   جبکہ  ان کے مقابل ہمارے خاندان کے مشہور مناظر حافظ عبدالقادر روپڑی    کھڑے ہوئے تو  مناظرہ پر باقاعدہ  گفتگو سے قبل ہی یہ اعتراض اٹھا دیا گیا کہ حافظ عبدالقادر روپڑی ’مولوی فاضل‘ نہیں ہیں (واضح رہے کہ برطانوی دور حکومت میں ’مولوی فاضل‘ یونیورسٹی دیتی تھی لہذا  وہ  D کی طرح یونیورسٹی کی معیاری ڈگری سمجھی جاتی تھی) اس عذر کو ختم کرنے کے لئے دادا گرامی (جو مولوی فاضل بھی تھے) میدان میں آ گئے ۔

مناظرہ کی ابتداء ہی میں مقلد مناظر نے یہ موقف اختیار کیا  کہ اہل حدیث صرف صحیح بخاری کو مانتے ہیں لہذا ’فاتحہ خلف الامام ‘بھی جامع بخاری سے ہی ثابت کریں جسے برسبیل تنزّل قبول کرتے ہوئے  دادا گرامی  نے بخاری  کی   حدیث لاَ صَلاَةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ  پڑھ کر امام بخاری  کا باب ’وجوب القراءة للإمام والمأموم....  بھی پڑھا جس کا ترجمہ:امام اور مقتدی  وغیرہ     پر  ہر قسم کی نمازوں میں فاتحہ خلف الامام واجب ہے  ۔ آپ نے تشریح کرتے ہوئے اپنے موقف کی تا ئید میں کہا کہ امام بخاری  نے اسی حدیث سے اپنا  موقف (فاتحہ خلف الامام )   ثابت کیا ہے ،دادا گرامی کا منطقی استدلال یوں تھا   کہ یہاں حرف ’لا‘ نفی جنس کا صور (علامت ) ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ کے بغیر  کسی بھی  قسم کی نماز نہیں ہوتی کیونکہ’لا‘ کے ذریعے  ’جنس ِصلاۃ‘ کی نفی ہو رہی ہے خواہ وہ امام کی ہو یا مقتدی کی (واضح رہے کہ برصغیر کے مدارس میں منطق وفلسفہ کےعلوم فنونِ حکمت  کے نام سے بہت محنت سے پڑھائے جاتے ہیں اور شریعت کے تشریح میں انہیں خوب استعمال کیا جاتا رہا ہے) دادا گرامی منطق فلسفہ کے بھی بڑے ماہر  استاد  تھے۔ عام علماء سے انکا امتیاز یہ تھا کہ وہ عملی طور پر جہاں علوم ’آلیہ‘ کے اجراء کے ماہر تھے وہاں کتاب و سنت کی گہری  سوجھ بوجھ کی  بنا پر ان کی  اطلاقی  جہتوں سے بخوبی آگاہ تھے لہذا وہ اسی اطلاق   (Aplication)کی طرف  مناظروں میں زیادہ توجہ دیتے، اسی اجتہاد و اطلاق کو  امام شافعی  نے اپنی کتاب الرسالة  میں ’ قیاس و استنباط ‘ کا نام دیا ہے اور اسی کو  امام بخاری   دلیل و استدلال سے تعبیر کرتے ہیں ۔

چونکہ اس انداز کی بحث میں جواب بھی گرا مر     یا  منطق وفلسفہ وغیرہ  سے ہی دیا جاتا تھا کیونکہ درس نظامی میں ’کافیہ ‘ شرح جامی جیسی کتابیں منطقی اسلوب میں ہی لکھی گئی ہیں ۔ جب حنفیہ کے  امرتسر میں بہت بڑے عالم     گرامر یا   منطق و فلسفہ کی بجائے اِدھر اُدھر سے  جواب دینے لگے تو اعتراض اٹھا کہ آپ کی  مرکزی شرط صحیح بخاری اور امام بخاری  ہیں ،لہذا مناظرہ کو ان کی حدود میں رکھا جائے ۔ طوالت کے خطرہ کے پیش نظر شرح جامی اور حاشیہ عبدالغفور وغیرہ کے وہ نکتے چھوڑے جا رہے ہیں جو دادا گرامی نے پیش کیے ۔(والد محترم   کو گرامر کی مذکورہ بالا کتابوں  کی  تمام تفصیلات   ازبر ہیں)  مختصر یہ کہ انہی دلائل کے مقابلہ میں جب حنفیہ کی طرف سے معقول جواب نہ آیا تو اہل حدیث نے کہا کہ ہم عصر کی نماز پڑھ لیتے  ہیں،اسی وقفہ میں  باہمی  تبادلہ خیال سے جواب سوچ   لیا جائے ۔ جب اہل حدیث نماز عصر میں مشغول ہو گئے تو حنفیہ نے یکّے (گھوڑا گاڑی) پر کتابیں رکھیں اور اپنی راہ لی۔

اہل حدیث مسلک کے دو گروہوں کا مناظرہ

اگرچہ موجودہ دور میں ’مناظرے ‘ پسند نہیں کیے جاتے کیونکہ یہ فرقہ بندی کو فروغ دیتے ہیں لیکن استقلال ِ پاکستان سے قبل تو یہ مناظرے ’علمی معرکے‘ سمجھے جاتے تھے ( درس نظامی  میں ’رشیدیہ‘ نامی کتاب  مناظرہ کی مہارت کی غرض سے ہی رکھی گئی ہے )جب ایسے حالات میں ثنائی غزنوی نزاع بھی ’محدث روپڑی ‘ کی طرف منتقل ہو گیا تو ہمارا خاندان بھی اسی میں کود پڑا ۔اسی سلسلہ میں ایک مناظرہ (باہمی اہل حدیث ) کی کہانی یوں ہے کہ دادا گرامی  کے چھوٹے بھائی (حافظ عبدالرحمن کمیرپوری) امرتسر کے لوہاری دروازے کی مسجد میں اسکے خطیب مولانا عبداللہ ثانی  (تلمیذِ رشید مولانا ثناءاللہ امرتسری ) سے ایک اہم موضوع  ( کیا جس جنت سے آدم ؑ کو نکالا گیا ،اسی میں دوبارہ داخل کیا جائے گا؟)پر درس دیتے ہوئے مناظرہ کرنے لگے تو مناظرہ کئی گھنٹوں پر پھیل گیا اور کوئی فیصلہ نہ ہو پا رہا تھا کہ اسمٰعیل نامی (ایک بزرگ لوہار  جو جمعہ دادا گرامی کی مسجد میں پڑھا کرتے تھے ) وہاں سے اٹھ کر دادا گرامی کے پاس پہنچے کہ وہاں  مسئلہ کی مناسب وضاحت ہونی چاہیے ۔ چنانچہ دادا گرامی  عوام اہل حدیث کو علمی الجھاؤ سے نکالنے کے لئے لوہاری دروازے کی مسجد اہل حدیث    پہنچ گئے ۔ پھر چند باتیں سن کر کھڑے ہو گئے کہ عوام نے صرف مناظرہ سننا ہے یا مسئلہ سمجھنا ہے۔  اگر مسئلہ سمجھنا ہے تو میں پانچ منٹ میں سمجھا سکتا ہوں  (ان شاءاللہ)  اس پر حضرت مولانا عبداللہ ثانی  گویا  ہوئے کہ کئی گھنٹوں  میں تو  مسئلہ حل  نہیں ہو پا رہا ، آپ صرف  5 منٹ میں کیسے  سمجھائیں  گے؟ دادا گرامی کہنے لگے کہ میں صرف 5 منٹ لوں گا اس سے زیادہ نہیں۔اس پر سامعین کا پرزور مطالبہ ہوا کہ حافظ محمد حسین   کو چند منٹ بولنے کا  موقع دیا جائے ،مسجد ھذا کے خطیب اس کا انکار نہ کر سکے تو دادا گرامی سٹیج پر آ گئے اور موقف کی وضاحت علمی یوں فرمائی:

زیر بحث صحیح   حدیث کی متنوع روایات میں [8]     آدم ؑ کا جنت سے نکل  کر دوبارہ اسی جنت میں داخل ہو جانا مراد ہے  ۔کیونکہ اس حدیث میں جنت کا ذکر  بصورۃ معرفہ دو دفعہ آیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں جگہ مراد ایک ہی ہے ۔ اس مفہوم کے درست ہونے کی دلیل دادا گرامی نے گرامر کے معروف قاعدہ (جب معرفہ کا تکرار ہو تو دونوں سے مراد ایک ہی ہوتی ہے )  پیش کرتے ہوئے اس قاعدہ  کے لئے  (سورۃ الم نشرح  )﴿ فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (5) إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (6)﴾

(بیشک تنگی سے قبل آسانی ہوتی ہے اور بلاشبہ اسی تنگی کے بعد دوسری آسانی مل جاتی ہے ) کومحلّ شاھدبنایا  کہ’ یسرا‘دونوں دفعہ نکرہ آیا لیکن’العسر‘ معرفہ  ہے لہذا  دو دفعہ العُسر سے مراد ایک ہی تنگی ہے۔

مولانا عبداللہ ثانی  نے اس قاعدہ  کے خلاف  اپنی دلیل قرآن کریم کی سورۃ المائدہ: آیت نمبر 45 ﴿وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنْفَ بِالْأَنْفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ.... الآية﴾ ترجمہ:ہم نے بنی اسرائیل کے لئے یہ حکم (قانون)نافذ کیا  تھا کہ   النفس (مقتول) کے بدلےالنفس (قاتل ) قصاص میں  مارا جائے گا ...   پیش کی اور کہا  کہ  النفس  (معرفہ) دو دفعہ وارد ہوا ہے ، مراد مختلف ہے   تو یہ قاعدہ  غلط ٹھہرا ۔ دادا گرامی نے اس کا جواب یہ دیا   کہ یہاں النفس دو دفعہ کے درمیان عوَض بتانے کے لئے (ب) موجود ہے جو اس امر کی دلیل ہے کہ یہاں قصاص (برابر کا بدلہ) مراد ہے ابن عباس ؓ کی زیرِ بحث حدیث میں کہیں ’ب‘ موجود نہیں  ،اس پر مولانا عبداللہ ثانی مرحوم خاموش ہو گئے اور مسئلہ پانچ منٹ میں حل ہو گیا ۔

عوام علمی باریکیوں سے تو واقف نہیں ہوتے ، انہیں یہ زور دار بات یاد  رہی کہ دادا گرامی  کی ’ب‘ کا جواب مولانا ثانی نہ دے سکے۔پورے امرتسر میں یہ شہرہ ہو گیا کہ مولانا عبداللہ ثانی             کو ’ب‘ نہیں آئی ۔ والد محترم کہتے ہیں کہ ایسی باتیں ذکر کرنے کو دل نہیں چاہتا لیکن  برصغیر میں فکری ارتقاء کی  تاریخ پیش کرتے ہوئے خاموشی بھی روا نہیں ۔ اللہ تعالی ٰ ہمیں دھڑے بندی کے  فتنے سے بچا کر رکھے۔ آمین۔

حوالہ جات:

[1]         مقدمہ عربی تفسیر القرآن بکلام الرحمن:ص  ،،17۔18     ،از مولانا صفی الرحمن مبارکپوری  (صاحب الرحیق المختوم)

[2]      مولاناحافظ صلاح الدین یوسف کے جنازے (12 جولائی 2021ء  )  پر’ مرکز اہل حدیث‘ لارنس روڈ    میں     راقم کی مولانا محمد عطاء اللہ حنیف کے           خلف الرشید  حافظ احمد شاکر ﷾سے ملاقات ہوئی تو    فرمانے لگے کہ ابا             جی    کہا کرتے تھے:  اہل حدیثوں کو ’ذکر و اذکار‘ پر لکھوی علما  ء  نے لگایا،’زہد و احسان ‘کی ترغیب غزنوی علماء  نے دی اور ’توحید‘  کا سبق روپڑی علماء نے سکھایا۔  

[3]      مقدمہ تفسیرالقرآن بکلام الرحمن:ص 20  ....( بعض علماء نے اس تفسیر میں قرآن کے بالمقابل قرآن کے لفظ سے یہ نکتہ اخذ کیا ہے کہ  اصطلاحاً  علم ِ کلام :فلسفہ و منطق کی رو سے  بحث و مناقشہ کا نام ہے ، امام ابویوسف  کہتے ہیں  من تعلم بالكلام فقد تذندق     لیکن یہ سوئے ظنی ہے۔

[4]      سورۃ البقرہ  :آیت نمبر160

[5]      افغانستان میں ریاست اور  جمہوریت کی بجائے ’امارت اسلامیہ‘ کے نام سے جس شرعی نظام کا عاشوراء کے دن اعلان ہوا ہے، اس میں یہی وہ علمی نکتہ ہے جو عام لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہا ۔اہل حدیث کے  سیاسی اکابر کو اب ’امارت اسلامیہ ‘کے حوالہ سے  یہی چیلنج در پیش ہے ۔ علمائے اہل حدیث انتظار میں ہیں کہ سیاسی لوگ کیا موقف اختیار کرتے ہیں ؟

[6]      چند سال قبل والد محترم نے تقریباً پانچ سو علمائے اہل حدیث کا  کنونشن بلا کر  پروفیسر ساجد میر صاحب سے اس کی صدارت کروائی۔ اس کنونشن میں والد محترم اور علامہ ابتسام الہی ظہیر نے گھنٹہ بھر  وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا(الفرقان:30)  پر خطاب کیا اور والد محترم نے قائد اعظم محمد علی جناح  جیسے قانون دان کے حوالہ سے  پرُ زور دلائل کے ساتھ واضح کیا کہ دنیا بھر میں  دینی ریاستوں کے لئے الہامی کتابوں کو ہی دستور بنانے پر اتفاق پایا جاتا ہے جیسا کہ’ اسرائیل‘ کا دستور’ تورات‘ ہی ہے۔ لہذا  پاکستان میں   مولانا سمیع الحق شہید اور قاضی عبداللطیف   کی طرح سینٹ میں ایک  ’شریعت بل‘ ہی  پیش کر دیا جائے  تاکہ  پاکستان میں  سعودی عرب کی طرح ’قرآن کریم‘ دستور قرار پانے کی راہ ہموار ہو سکے ، لیکن پروفیسر صاحب  ہر بار یہی جواب دے رہے ہیں کہ سعودی عرب کے دستور اور   حکومت سے وہ زیادہ واقف ہیں  کیونکہ    کتاب و سنت’ دستور ‘  بن ہی نہیں  سکتے ۔ ہمیں تسلیم ہے کہ پروفیسر کا سیاسی ’قدوقامت ‘ بہت بڑا ہے لیکن علمی میدان میں وہ مدنی صاحب سے بخوبی واقف ہیں کہ عرب  ممالک میں انکی حیثیت کیا ہے ؟ !حتی کہ بڑے بڑے علمی اور سرکاری مناصب کے حامل بشمول محدث مدینہ منورہ (فضيلة الشيخ   الأستاذ الدكتورعبدالرزاق البدر بن عبدالمحسن العبّاد ) ان کا بیٹا بننے میں ’فخر‘ محسوس کرتے ہیں کیونکہ  مدنی صاحب ان کے عقائد اور حکومتی نظاموں کے زیادہ بہتر ترجمان ہیں بلکہ بعض تو  آپ کو ’ شیخ الاسلام ‘ کے لقب سے  بلاتے ہیں۔

[7]      برصغیر پاک و ہند میں علمی اختلافات کی تحقیق کی بجائے فرقہ بندی پر زور ہے ۔  جو جزوی مسائل پر مناظروں سے پروان چڑھتا ہے ، چنانچہ چند ایک جزوی اختلافات پر ہی نیا دھڑا کھڑا ہو جاتا ہے۔  اسی وجہ سے جزوی مسائل پر فرقے اور دھڑے بنتے رہتے ہیں جسے ’ مذہبی سیاست ‘ کہا جاتا ہے ۔ عوام علمی اختلاف کی بنیادوں سے تو واقف  نہیں ہوتے ، مناظروں میں اپنے اپنے دھڑوں کے علماء  کومجتہدالعصر ، محقق العصر اور محدث دوراں وغیرہ کے القاب دے کر مطمئن ہو جاتے ہیں ،لہذا ہر علمی اختلاف ’نزاع ‘ بن جاتا ہے ، اسی مفہوم میں’ روپڑی ثنائی نزاع‘ مشہور ہے ۔

[8]        حدیث رسول ﷺ میں جنت  سےدونوں جگہ ’آسمانی جنت‘ ہی  مراد  ہے، حدیث ہذا کی متعدد روایتیں  ہیں جو درجہ کے اعتبار سے اعلیٰ اور ادنیٰ ہونے کے باوصف  ایک دوسرے کی مؤید  ہیں  ۔حافظ ابن کثیر  نے بحواله المستدرک للإمام حاکم رحمه الله اور تفسیر القرآن العظیم  لابن  أبی حاتم رحمه الله(  مذکورہ روایات اور ان  کی تخریج وغیرہ کرتے ہوئے) طویل گفتگو کی ہے جس کا خلاصہ یوں ہے :اس حد  یث کو عوفی ،سعید بن جبیر اور سعید بن معبد نے سید نا ابن عباس ؓ سے  روایت کیا ہے اور امام حاکم نے اپنی مستدرک میں ابن جبیر سے  سیدنا ابن عباس ؓ  کی یہ حدیث روايت  کی ہے ،چنانچہ  السدی (الکبیر ) اور  عطیہ عوفی نے اس حدیث کی تفسیر کرتے ہوئے      ایک ہی  جنت مراد لی ہے۔ (ابن کثیر  ج 1 ص 111)   سعودی عرب  کےاجل محقق شیخ عبدالعزیز الراجحی نے بھی  اپنی  ضخیم شرح تفسیر ابن کثیر  ج 29  ص 9... صوتیاً    میں  زیر بحث احادیث کی  تحقیق  وتخریج    کرتے ہوئے حافظ ابن کثیر کی نسبت سے  ایک روایت کو       صحیح قرار دیا ہے  جبکہ دیگر روایات اس کی مؤید ہیں۔