سائنسی ارتقاء اور وحی الہیٰ

پال کی نام نہاد عیسائیت کا یہ تصور کہ "مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے" جب سیکولرزم کو اپنی مخصوص حکمت عملی کے تحت قبول کرنا پڑا تو اس نے اسلام کو بھی بدنام کرنے کے لئے سائنسی ترقی اور ٹیکنالوجی کے ساتھ متعارض ہونے کا پروپیگنڈا شروع کر دیا جس کا رد عمل مسلمان دانشور طبقے پر یہ ہوا کہ انہوں نے تقریر و تحریر سے شریعت میں مشاہدہ و عقل کی اہمیت اور انسانی ترقی کی حوصلہ افزائی کے ساتھ انسان و کائنات کے بارے میں جو ارشادات ملتے ہیں انہیں فلسفہ و سائنس کی تائید میں پیش کرنے کا اہتمام کیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن و حدیث میں انسان اور کائنات کے بارے میں "کیوں" اور "کیسے" کے جوابات سے متعلق بھی بہت کچھ رہنمائی ملتی ہے جس سے سائنس وفلسفہ کو درست راہوں پر بھی ڈالا جا سکتا ہے لیکن یہ امر واضع رہے کہ خالق کائنات کا مقصد "وحی" سے سائنس و فلسفہ کی عقدہ کشائی نہیں بلکہ فطرتِ انسانی کو خیر و شر کے نکھار کے مقصد حیات کی روشنی مہیا کرنا ہے لہذا قرآن و حدیث کا مطالعہ اسی نکتہ نظر سے کرنا چاہیے۔ کیونکہ حضرت انسان واقعات کے خیر و شر کے ضمن میں خود واقعہ کی تفصیلات سے بھی قلبی اطمینان محسوس کرتا ہے۔ اس لئے واقعات میں تاریخ و آثار کی تصحیح کی حد تک قرآن نے بھی دلچسپی لی ہے تاہم صحیح علمی رویہ بھی بتا دیا کہ اس علمی اختلاف میں کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی اس کے بارے میں زیادہ اہتمام کی ضرورت ہے، چنانچہ قرآن میں اصحابِ کہف کی تعداد اور ان کے کتے کے بارے میں تاریخ دانوں کے مختلف اقوال ذکر کر کے قرآن نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیحت کی کہ ایسی باتیں لوگ عموما (رجما بالغيب) (اٹکل پچو) کرتے ہیں اور اصحابِ کہف کی تعداد (سات کے حوالے سے جبکہ آٹھواں کتا ہو) کی تردید کئے بغیر علمی رویہ یہی بتایا کہ ایسے معاملات کو اللہ کے سپرد کرنا مناسب ہوتا ہے۔ ایسی باتوں میں اُلجھنا نہیں چاہیے اور نہ ہی زیادہ کرید کی ضرورت ہے ﴿وَيَقُولُونَ سَبْعَةٌ وَثَامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ ۚ قُل رَّ‌بِّىٓ أَعْلَمُ بِعِدَّتِهِم مَّا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا قَلِيلٌ ۗ فَلَا تُمَارِ‌ فِيهِمْ إِلَّا مِرَ‌آءً ظَـٰهِرً‌ا وَلَا تَسْتَفْتِ فِيهِم مِّنْهُمْ أَحَدًا...٢٢﴾...سورة الكهف"اور وہ کہتے ہیں: وہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا۔ آپ کہیں کہ میرا رب ان کی تعداد کو زیادہ بہتر جانتا ہے۔ ان کے بارے میں بہت کم لوگ علم رکھتے ہیں۔ سو ان کے بارے میں مت جھگڑا کریں۔ مگر سرسری جھگڑنا اور ان میں سے کسی سے اِن کا حل نہ پوچھیں"۔۔۔ الغرض کتابِ رُشد و ہدایت قرآن کریم سے علوم انسانی کا قبلہ درست کیا جا سکتا ہے لیکن ان علوم میں تفصیلی بحث اس کا موضوع نہیں۔ یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ اسلام تعلیمات کسی قسم کی علمی تحقیقی و تعلیم کی حوصلہ شکنی نہیں کرتیں بلکہ انسان کو مہمیز کرتی ہیں کہ وہ عجائبِ قدرت میں غور و فکر کرے تاکہ اس کی بنیاد پر اپنے ایمان و یقین کو مزید مستحکم کر لے۔ زیر نظر مضمون میں یہی طرزِ فکر پیش کیا گیا ہے۔ (محدث)

"مذہب و سائنس میں تضاد ہے"۔۔۔ یہ اہل مغرب اور مشرق کے مستغربین کا پسندیدہ نعرہ رہا ہے۔ چونکہ ان افراد کو شیطانی پروپیگنڈہ کے تمام وسائل حاصل رہے ہیں، اس لئے اس پروپیگنڈہ کی گونج دنیا بھر میں برپا کر دی گئی۔

"مذہب" انسان کی اخلاقیات سے بحث کرتا ہے اور سائنس کا میدان، انسانی زندگی میں آسائش و ترقی رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں کے درمیان فرق ہے لیکن تضاد نہیں، ہاں اگر مذہب سے مراد پال (Pall) کی عیسائیت ہو تو پھر اہل مغرب کا شکوہ کسی حد تک بجا ہے کیونکہ اس مذہب، عیسائیت، میں عقل و دانش کی بات کرنا الحاد و بے دینی گردانا گیا ہے۔ اور اس " جرمِ خرد مندی" پر کم و بیش بیس ہزار اہل دانش و علماء سائنس کو مختلف اذیتیں دی گئیں۔ اس عمل کا ردِ عمل یہ ہوا کہ مغرب میں کلیسا و حکمت کی وحدت، تقسیم سے بدل گئی اور حکومتی اُمور میں کلیسا کو کلیة بے دخل کر کے یہ نعرہ تخلیق کیا گیا کہ "مذہب ہر ایک کا ذاتی معاملہ ہے" گویا مذہبی رہنماؤں کو یہ باور کرایا گیا کہ ان کا مذہبی رویہ، تنگ نظری اور کارِ حکومت، عقلی، سائنسی ترقی، اِن دونوں کا ساتھ چلنا ممکن نہیں!

اہل مغرب سے ہمارا شکوہ یہ ہے کہ انہوں نے گھسیارے کی تلوار اور تیغِ براں میں فرق نہیں کیا، اور لکڑیوں کے باٹ سے سونے کو تولا۔ اس لئے کہ منسوخ و محرف عیسائیت اور دینِ فطرت، اسلام، میں بہرحال نمایاں فرق ہے۔ اسلام صرف اُخروی فلاح کا نہیں بلکہ دین و دنیا کی فلاح کا ضامن ہے: ﴿يَقُولُ رَ‌بَّنَآ ءَاتِنَا فِى ٱلدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِى ٱلْءَاخِرَ‌ةِ حَسَنَةً...٢٠١﴾...سورة البقرة (اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھی اچھی دیجئے اور آخرت میں بھی اچھی عطا فرمائیے ) قرآن کی یہ دعا ایک بندہ مومن کا مقصود ہے۔

عقلیات و سائنس کی تمام تر تحقیقات و اتکشافات کا مقصود کار، دنیوی میں آسانی اور حیاتِ انسانی میں آسائش رہا ہے اور اسلام اس "دنیائے حسنہ" کے خلاف نہیں۔

قرآن نے انسانیت کو تعقل، تفکر، تذکر و تدبر کا سبق دیا اور مسلمانوں نے اپنے عقلی و سائنسی رویہ کی بدولت ، علوم انسانی کو نمایاں ترقی دی، ایجادات و اختراعات کے میدان میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں اور سائنسی کی بنیاد رکھی۔ یہ سب کچھ رہینِ منت ہے قرآن کریم کا۔

اس کتاب ِ حقائق میں کوئی ایک لفظ بھی عقل و جدید سائنس (1) کے خلاف نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ کتاب نازل کرنے والی اور کائنات کو پیدا کرنے والی ہستی۔۔۔ اللہ ۔۔۔۔ ایک ہی ہے۔

(1)سائنسی ارتقاء زیادہ مناسب لفظ ہے کیونکہ آج کی جدید سائنس مستقبل میں قدیم ہو سکتی ہے۔

تمام کائنات میں اسی ایک ہی کی قوت کارفرما ہے ارشاد ہے:

﴿وْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّـهُ لَفَسَدَتَا...٢٢﴾...سورة الانبياء
"اگر اس کائنات میں دو الہٰ (2)ہوتے تو فساد برپا ہو جاتا"

(2)خداؤں کے تعدد سے فساد لازم آنے کا تصور تو درست ہے جسے شرعی اصطلاح میں "دلیل تمانع" کہتے ہیں لیکن اس آیت کی یہ تفسیر نہیں۔ اس آیت میں پیدا کرنے والے " رب" کا تعدد زیر بحث ہی نہیں بلکہ معبود حق کا تعدد زیر بحث ہے کیونکہ اس آیت سے تعدد آلہہ (معبودان باطلہ) کی تردید مقصود ہے جو واقعاتی طور پر مشرکین نے گھڑ رکھے تھے ۔یہاں متعدد ارباب (کئی خداؤں) کی تردید مراد نہیں کیونکہ اس کے تو مشرکین قائل ہی نہ تھے۔ (محدث)

کائنات کے ذرے (Atom) سے لے کر زمین تک کئی گنا بڑے سیاروں و کہکشاں (Glaxies) تک میں باہم توازن قائم ہے۔ پوری کائنات میں یہ توافق و ہم آہنگی، سائنس کے طالب علم کو توحید کی جانب لے جاتی ہے۔

قرآن کریم نے جن سائنسی حقائق کی جانب ہماری راہنمائی کی ہے، جدید سائنسی ترقی کے سبب اس کو سمجھنا آسان تر ہو گیا ہے اور ابھی کتنے ہی قرآنی اسرار باقی ہیں کہ جن کی تشریح میں سائنس کو خدا معلوم کتنا سفر کرنا پڑے گا۔

تفسیر قرآن۔۔۔۔۔۔۔ جدید و قدیم مفسرین اور سائنس کی روشنی میں

تفسیر، معنی و مفہوم

تفسیر ایک ایسا علم جس کی مدد سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ قرآن کے معانی سمجھے جاتے ہیں اور اس کے احکام و مسائل اور اسرار و حِکَم سے بحث کی جاتی ہے۔

(2) جس میں بشری استطاعت کی حد تک اس امر سے بحث کی جاتی ہے کہ الفاظِ قرآنی سے خدا تعالیٰ کی مراد کیا ہے۔

(3) جس میں قرآنی آیات کے نزول اور ان کے متعلقہ اسبابِ نزول نیز مکی و مدنی، محکم و متشابہہ ، ناسخ و منسوخ، کاص و عام، مطلق و مفید، مجمل و مفسر، حلال و حرام وعد و وعید ، امرونہی اور عبرت و امثَال وغیرہ سے بحث کی جاتی ہے۔

سائنس، تعریف

وہ علم جس میں کائنات کا مطالعہ و مشاہدہ کیا جاتا ہے اور تجربات سے نئی ایجادیں کی جاتی ہیں۔

(1)مضمون۔۔۔۔ "کائنات کی ہر چیز جوڑا جوڑا ہے"

متعلقہ آیاتِ کریمہ

درج ذیل آیات اس مضمون کو ثابت کرتی ہیں:

﴿وَمِن كُلِّ الثَّمَرَ‌اتِ جَعَلَ فِيهَا زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ...٣﴾...سورة الرعد
"اسی نے ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیدا کئے ہیں۔"

﴿ فَأَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ زَوْجٍ كَرِ‌يمٍ ﴿١٠﴾...سورة لقمان
"سو زمین میں قسم قسم کی عمدہ چیزیں اُگا دیں"

﴿خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا...١٢﴾...سورة الزخرف
"اس نے تمام جوڑے پیدا کئے"

﴿خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْ‌ضُ وَمِنْ أَنفُسِهِمْ وَمِمَّا لَا يَعْلَمُونَ ﴿٣٦﴾...سورة يٰس
"پاک ہے وہ ذات، جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کئے خواہ وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں یا خود ان کی اپنی جنس (یعنی نوع انسانی) میں سے یا ان اشیاء میں سے جن کو یہ جانتے تک نہیں"

﴿جَعَلَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَمِنَ الْأَنْعَامِ أَزْوَاجًا...١١﴾...سورة الشورٰى
"جس نے تمہاری اپنی جنس سے تمہارے لئے جوڑے پیدا کئے اور اسی طرح جانوروں میں بھی (انہی کے ہم جنس) جوڑے پھیلائے" (الشوریٰ:11)

﴿وَمِن كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُ‌ونَ ﴿٤٩﴾...سورة الذٰريٰت
"اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے تاکہ تم اس سے سبق لو"

ان آیات میں ایک ہی موضوع بیان کیا گیا ہے یعنی یہ کہ ہر مخلوق جوڑا جوڑا ہے۔

طریقہ کار: ہم اولا قدیم تفسیر میں ان آیات کی جو تفسیر کی گئی ہے، اس کے ضرروی حصہ کو نقل کریں گے۔ پھر عصر جدید کے مفسرین نے ان آیات کی جو تشریح کی ہے اس کے اہم نکات کو درج کرین گے (یاد رہے کہ ہر مفسر نے ہر آیت کی مفصل تشریح نہیں کی، اس لئے ہم انہی فاضل مفسرین کا حوالے دیں گے جنہوں نے متعلقہ آیات کی تفسیر واضح طور پر کی ہے) اور آخر میں سائنس کے انکشافات و اکتشافات کو درج کر کے بتائیں گے کہ عصر حاضر کی سائنس کس طرح بتدریج ترقی کر کے جہاں تک پہنچی ہے کتاب اللہ نے چودہ صدیاں قبل ہی ان حقائق کی طرف ہمیں متوجہ کر دیا تھا۔

چند قدیم مفسرین کے تفسیری نوٹ

آیت (مِن كُلِّ ٱلثَّمَرَ‌ٰ‌تِ جَعَلَ فِيهَا زَوْجَيْنِ ٱثْنَيْنِ)

کے حوالے سے تفسیر کشاف میں ہے:

(جَعَلَ فِيهَا زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ)خلق فيها من جميع أنواع الثمرات زوجين حين مدهاّ ثم تكاثرت بعد ذلك و تنوعت و قيل أراد بالزوجين الأسود والأبيض والحلو والخامض والصغير والكبير وما أشبه ذلك من الأصناف المختلفة

(جَعَلَ فِيهَا زَوْجَيْنِ ٱثْنَيْنِ) سے مراد ہے کہ دنیا میں پھلوں کی بھی تمام اقسام کو جوڑا جوڑا پیدا کیا۔ بعد میں یہ پھل بکثرت اور متنوع ہو گئے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ الزوجین سے مراد سفید و سیاہ ، میٹھا اور کٹھا، چھوٹا اور بڑا اور اسی طرح دیگر مختلف اضداد سے ہر شے کو زوجین پیدا کیا گیا"

تفسیر معالم تنزیل میں آیت (سُبْحَـٰنَ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلْأَزْوَ‌ٰجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنۢبِتُ ٱلْأَرْ‌ضُ وَمِنْ أَنفُسِهِمْ وَمِمَّا لَا يَعْلَمُونَ) کی تفسیر اس طرح ہے:

(كلها) أي الأصناف كلها (مما تُنبت الأرض) من الثمار والحبوب (ومن انفسهم) يعني الذكور والإناث (ومما لا يعلمون) مما خلق من الأشياء من دواب البر والبحر

"(كلها) یعنی تمام تر اصناف (مما تنبت الأرض) مراد ہے پھل اور اناج (من أنفسهم) بمعنی مرد و عورت (مما لا يعلمون) سے مراد ہے: زمین و سمندر میں اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ کثیر مخلوق"

تفسیر قرطبی میں ہے:

"الأزواج الأنواع والأصناف فكل زوج صنف لأنه مختلف في الألوان والطعام والأشكال والصغر والكبر فاختلافها هو أزواجها"

"اللہ تعالیٰ نے تمام انواع و اصناف میں زوجیت رکھی ہے اسی وجہ سے ان میں رنگ، ذائقے، شکل و صورت اور چھوٹے بڑے ہونے کا اختلاف ہے (جو ان کی زوجیت کی جانب، اشارہ کر رہا ہے)

تفسیر بیضاوی و تفسیر خازن میں بھی قریب قریب میں یہی طرز اختیار کیا گیا ہے۔ آیت کے آخری حصہ (مِمَّا لَا يَعْلَمُونَ) کی تفسیر کشاف میں یوں کی گئی ہے:

"مراد وہ جوڑے ہیں جن کا ہمیں ابھی علم نہیں ہے، وہ حیوانات و جمادات سے بھی ممکن ہیں۔ اس علم کے ہونے کا سبب یہ ہے کہ ان سے ہماری کوئی حاجت و ضرورت وابستہ نہیں ہے۔"

اور حضرت ابن عباس کے قول کے مطابق اس سے مراد وہ حدیث ہے کہ جس میں جنت کی نعمتوں کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ ان (نعمتوں) کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کان نے سُنا اور نہ ہی دل پر اس کا کوئی عکس پڑ سکا۔۔۔ اور ہم لوگ اپنی کثرتِ معلومات کے باوجود ابھی اللہ کی کتنی ہی مخلوقات کا علم حاصل نہیں کر سکے"

(وَمِن كُلِّ شَىْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ) کی توضیح میں امام ابن کثیر یوں فرماتے ہیں:

"تمام مخلوقات کو اللہ تعالیٰ نے جوڑا جوڑا پیدا کیا ہے: جیسے آسمان و زمین، دن رات، سورج و چاند، خشکی تری، اُجالا اندھیرا، ایمان کفر، موت حیات، نیکی بدی، جنت دوزخ، یہاں تک کہ حیوانات اور نباتا تک کے بھی جوڑے بنائے ہیں تاکہ ہمیں نصیحت حاصل ہو"

جدید مفسرین کی آراء

ذیل میں ہم چند ایک اہم مفسرین کے تشریحی نوٹ ذکر کرتے ہیں، جس سے قدیم و جدید طرز تفسیر میں فرق نمایاں طور پر محسوس ہو گا۔ بعض مفسرین نے ایسی آیات میں بہت اختصار سے کام لیا ہے اور مضمون کی دوسری آیات کی بھی کوئی نمایاں تشریح نہیں کی۔ جہاں بھی مفصل اور ہمہ جہت تحقیقی کوشش کی ہے ، ہم نے اسے بالاختصار نقل کر دیا ہے۔

عجیب نکتہ

مولانا امین احسن اصلاحی، تدبر قرآن میں آیت (سُبْحَـٰنَ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلْأَزْوَ‌ٰجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنۢبِتُ ٱلْأَرْ‌ضُ) کی تشریح میں ایک عجیب نکتہ بیان کرتے ہیں کہ

"جب ہر چیز جوڑا جوڑا ہے اور ہر چیز اپنے جوڑے سے مل کر اپنے مقصد کو پورا کرتی ہے تو لازم ہے کہ اس دنیا کا بھی کوئی جوڑا ہو ورنہ یہ بالکل بے مقصد اور بے غایت ہو کے رہ جاتی ہے اور یہ بات ایک حکیم کی شان سے بعید ہے کہ وہ کوئی عبث اور بے مقصد کام کرے چنانچہ اس دنیا کے اس خلا کو بھرنے کے لئے اس نے آخرت بنائی"

مولانا وحید الدین خان اس آیت کے کچھ اور پہلو نمایاں کرتے ہیں:

"یہاں کی تمام چیزوں کا جوڑے جوڑے ہونا، مادہ میں مثبت و منفی ذرے، نباتات میں نر اور مادہ، انسان میں عورت اور مادہ، اس سے کائنات کا یہ مزاج معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اشیاء کی کمی کو اس کے جوڑے کے ذریعے مکمل کرنے کا قانون رائج ہے۔

یہ قرینہ ہے کہ جو آخرت کے امکان کو ثابت کرتا ہے آخرت کی دنیا گویا موجودہ دنیا کا دوسرا جوڑا ہے جس سے مل کے ہماری دنیا اپنے آپ کو مکمل کرتی ہے"

تفسیر ماجدی میں ہے:

"جدید سائنس کا یہ ایک مشہور مسئلہ ہے کہ نر و مادہ کا وجود ائنات کی ہر صنف، موجود میں پایا جاتا ہے یہاں تک کہ حیوانات سے گذر کر نباتات بلکہ جمادات میں بھی"

سید قطب اس موضوع کو یوں کھولتے ہیں کہ:

"ذروں میں منفی و مثبت جوڑے ہیں، اس لئے ایسے ہی ہزار ہا ستارے جو دو مربوط ستاروں سے مرکب ہیں، وہ ایک دوسرے کو مضبوطی سےباندھتے ہیں اور ایک ہی دیوار میں گھومتے ہیں گویا کہ یہ سُرہیں جو ایک مرتب نغمہ سے نکلتے ہیں"

علامہ جوہری طنطاوی فرماتے ہیں:

"وفي الأرض أزواج النبات والحيوان والانسان فمنها الذكران والإناث ومن نبات ذكر و أنثى"

" انسان و حیوانات کی طرح، نباتات و زمین کی ہر پیداوار میں قانون تزویج کام کر رہا ہے"

تفہیم القرآن میں اس آیت کی ذیل میں یہ تشریح ہے:

"انسان اور حیوان کی نسلیں تو جوڑا جوڑا ہی ہیں، نباتات کے متعلق بھی انسان جانتا ہے کہ ان میں تزویج کا اصول کام کر رہا ہے حتیٰ کہ بے جان مادوں تک میں بھی مختلف اشیاء جب ایک دوسرے سے جوڑ کھاتی ہیں تب کہیں ان سے طرح طرح کے مرکبات وجود میں آتے ہیں خود مادے کی بنیادی ترکیب منفی اور مثبت، برقی توانائی کے ارتباط سے ہوئی ہے۔ یہ تزویج ہے جس کی بدولت ساری کائنات وجود میں آئی ہے"

پیر کرم شاہ اس آیت کی تشریح یوں کرتے ہیں کہ

" اس رب نے زمین سے جو چیزیں بھی بنائی ہیں انہیں جوڑا جوڑا بنایا ہے۔ نر اور مادہ کا سلسلہ درختوں، پودوں، پھلوں، پھولوں، جھاڑیوں، گھاس، غرض کہ جو چیز زمین سے اگتی ہے اس کو نر اور مادہ میں تقسیم کر دیا ہے اور (أَرْ‌سَلْنَا ٱلرِّ‌يَـٰحَ لَوَ‌ٰقِحَ) سے بتا دیا ہے کہ تلقيح کا عمل صرف حیوانات کی دنیا تک محدود نہیں بلکہ حیوانات ، نباتات اور ایسی اجناس جن کو تم ابھی جانتے بھی نہیں ہو، وہاں تک پھیلا ہوا ہے"

(سُبْحَـٰنَ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلْأَزْوَ‌ٰجَ كُلَّهَا) کے حوالے سے تفہیم القرآن میں ہے:

"جوڑوں سے مراد، صرف نوع انسانی کے زن و مرد اور حیوانات و نباتات کے نر اور مادہ ہی نہیں ہیں بلکہ دوسری بے شمار چیزیں بھی ہیں جن کو خالق نے ایک دوسرے کا جوڑا بنایا ہے"

(مِن كُلِّ شَىْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ) کی تشریح میں سید قطب لکھتے ہیں:

"ممکن ہے زوجین کا یہی قاعدہ ساری کائنات میں جاری ہو۔ جدید ترین علمی بحث یہی ہے کہ کائنات کی تخلیق کی بنیاد ذرہ ہے اور اس میں مثبت و منفی اثرات کار فرما ہیں اور معلوم ہوا کہ جدید سائنس بھی اسی راہ پر آ رہی ہے"

مولانا ابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں:

"دنیا کی تمام اشیاء تزویج کے اصول پر بنائی گئی ہیں۔ یہ سارا کارخانہ عالم اس قاعدے پر چل رہا ہےکہ بعض چیزوں کا بعض چیزوں سے جوڑ لگتا ہے۔۔۔۔ یہاں کوئی ایسی شے بھی منفرد نہیں ہے کہ دوسری شے سے اس کا جوڑ نہ ہو بلکہ ہر چیز اپنے جوڑے سے مل کر ہی نتیجہ خیز ہوتی ہے"

شیخ طنطاوی کی طویل تفسیری عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ

"اللہ نے ہر چیز جوڑا جوڑا پیدا فرمائی ہے۔ نظام انسان و نظام نباتات سب جوڑا جوڑا ہیں حتیٰ کہ پتوں میں بھی نر اور مادہ ہیں اور ان کی نشوونما کا عمل برابر جاری ہے۔ پھر انہوں نے مختلف بیجوں کی مثالیں دے کر بتایا کہ کس طرح یہ بیج تدریجا بلوغ تک پہنچتے اور نسل کشی کا عمل کرتے ہیں۔ پھولوں اور دیگر نباتات میں یہ عمل ایک حیرت انگیز توافق اور تدبیر کے ساتھ چل رہا ہے۔

قدیم و جدید طرزِ تفسیر میں فرق

قدیم تفاسیر میں ان آیات سے مراد انسانوں کے جوڑے ہیں یا پھر اضداد یعنی بلندی پستی نیکی بدی وغیرہ کا مفہوم لیا گیا ہے اور انہوں نے (مِمَّا لَا يَعْلَمُونَ) میں کچھ احتمالات ظاہر کیے ہیں۔

جبکہ عہد جدید میں مفسرین نے سائنسی ترقی اور انسانی علوم کے ارتقاء کے سبب ان آیات کے مخفی گوشے بے نقاب کئے ہیں۔ یہاں کہیں عملِ تلقيح کی تشریھ ملتی ہے تو کہیں مثبت و منفی برق پاروں کی تکرار اور یہ کہ نباتات کے ساتھ جمادات بھی جوڑا جوڑا ہیں۔ جدید تفسیر میں اس حوالے سے احتمالات کے مقابلے میں یقین زیادہ ہے اور قریب قریب تمام مفسرین ہی سائنسی علوم سے استفادہ کرتے نظر آتے ہیں۔

جدید سائنس کا نظریہ

معروف ماہر طبیعات اینڈرسن کہتے ہیں:

"یہ تصور طبیعات میں بنیادی اصول کی حیثیت رکھتا ہے کہ کائنات میں ہر ذرے کا ایک برقی پارا اور چکر ہوتا ہے۔ جب ایک جوہر بنتا ہے تو اس کا مخالف ایک جڑواں بھی بن جاتا ہے۔"

نیوکلیائی فزکس کا اصول ہی ہے کہ "جوہر یا ذرے کا ایک مخالف جڑواں بھی موجود ہوتا ہے۔"

جوڑوں کی اقسام

(1)انسانوں کے جوڑے جیسے مرد و عورت

(2) حیاتیاتی طور پر مخالف جوڑے جیسے پودے وغیرہ

(3) وہ جوڑے جو اپنی مادی اور کیمیائی خصوصیات میں مختلف ہوتے ہیں جیسے دھاتیں وغیرہ

(4) مادی طور پر مخالف جوڑے یعنی مثبت و منفی برقی جوہر اور برقی چارج کا الٹ ہونا۔

(5)مقناطیسی مخالف جوڑے

(6)ایسے جوڑے جو ہم نہیں جانتے۔ مثلا

(i) توانائی کے اخراج اور تحلیل یا جذب ہونے کے عمل کو کائناتی علم طبیعات نے اب تسلیم کیا ہے۔

(ii) تاروں کے اُن جھرمٹوں کو بھی اب انسانوں نے سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ یہ ایسے خطے ہیں جو جڑواں صورت میں ہیں مگر ایک دوسرے کے سلسلے میں مکمل طور پر مخالف اثر اندازی کرتے ہیں۔

(iii) کشمکش اور دور ہٹانے والی قوتیں، خاص طور پر کشش ثقل کی قوتیں، مرکز گذیدہ قوتوں کی وجہ سے ساکن ہو جاتی ہیں اگر ان دو قوتوں میں یہ مخالفت موجود نہ ہوتی تو یا تمام ستارے اپنے اپنے سورجوں میں گِر جاتے یا پھر باہر ہی کُرے میں گم ہو جاتے۔ یہ حقیقت ہے کہ کائنات میں کششِ ثقل اور گردشی حرکت نے ناقابل یقین توازن قائم کر رکھا ہے اور یہ عجوبہ مزید حیران کُن بن جاتا ہے جب ہم اِسے اپنی زمین اور کائنات کے مقابل میں دیکھتے ہیں۔

زمین کے ساتھ شمسی نظام بنانے کے علاوہ ہمارے سیارے بھی اسی قسم کا گردشی توازن اپنے اپنے سیٹلائٹ (اقمار) کے ساتھ قائم رکھتے ہیں۔ پھر یہ چھوٹے چھوٹے سیارے سورج کے گرد چکر کا ایک اور نظام تشکیل دیتے ہیں۔

اس طرح نو سیٹلائٹ (اقمار) اور ان کے بہت سے اقمار سورج کے گرد مختلف محوروں میں گردش کرتے ہیں اس طرح یہ کائناتی اجسام سورج میں گرنے سے بچے رہتے ہیں۔ اس کے جواب میں سورج ان اجسام کو ان کے محور میں توازن مہیا کرتا ہے تاکہ وہ فضائے بسیط (Space) میں گم نہ ہو جائیں۔

اسی پر بات ختم نہیں ہو جاتی بلکہ ایک مزید گردش کا نظام یا گردش کا ایک جوڑا بھی ہے۔ جس میں ستاروں کی ثریا (Milky Way Galaxy) ہے۔ اسی طرح ہماری زمین سورج سمیت ایک اور محور پر گردش کر رہی ہے یہ سفر بھی پچیس کروڑ سالوں میں پوراہوتا ہے ۔۔۔۔ان نامعلوم جوڑوں کا ہمیں اب علم ہوا ہے۔

اس طرح ہم نے قرآنی معجزات کے رازوں کے جوڑوں کی ایسی مثالیں ڈھونڈ نکالی ہیں جن کو ہم کل تک نہیں جانتے تھے۔ یہ یقینا قرآن کا اعجاز ہے کہ قافلہ انسانیت جوں جوں سائنس و فن میں ترقی کرتا جاتا ہے، توں توں قرآنی اسرار و رموز بھی ہم پر کُھلتے جاتے ہیں، اسے بالیقین معجزہ قرآنی ہی کہا جائےگی۔

(2)مضمون۔۔۔۔۔۔۔۔دوپانیوں کا سنگم

آیاتِ کریمہدرج ذیل آیات ہیں جو اس مفہوم کو ثابت کرتی ہیں:

(وَهُوَ ٱلَّذِى مَرَ‌جَ ٱلْبَحْرَ‌يْنِ هَـٰذَا عَذْبٌ فُرَ‌اتٌ وَهَـٰذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْ‌زَخًا وَحِجْرً‌ا مَّحْجُورً‌ا)

"اور وہی ہے جس نے دو سمندروں کو ملا رکھا ہے: ایک لذیذ و شیریں، دوسرا تلخ و شور اور دونوں کے درمیان ایک پردہ حائل ہے، ایک رکاوٹ ہے جو انہیں گڈ مڈ ہونے سے روکے ہوئے ہے"

(مَرَ‌جَ ٱلْبَحْرَ‌يْنِ يَلْتَقِيَانِ ﴿١٩﴾ بَيْنَهُمَا بَرْ‌زَخٌ لَّا يَبْغِيَانِ ﴿٢٠﴾)

"دو سمندروں کو اس نے چھوڑ دیا کہ باہم مل جائیں، پھر بھی ان کے درمیان ایک پردہ حائل ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے"

قدیم طرزِ تفسیر

مفسرِ قرآن علامہ ابن کثیر نے پانی کی دو تقسیمیں کی ہیں:

1۔ نہروں، چشموں، کنوؤں کا پانی، یہ شیریں ہے۔

2۔ سمندروں کا پانی، یہ کڑوا ہے۔

پھر سمندر کے پانی ایسے ہیں جو بہتے نہیں بلکہ وہیں متلاطم ہیں اور اُدھر ہی موجیں مارتے ہیں اور ان کا مدوجزر بھی سمندر میں ہی ہوتا ہے۔

کھارے پانی کا مصرف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

یہ پانی ہواؤں کو صاف ستھرا کر دیتا ہے۔ یہ فضا و پانی کی بو کو ختم کرتا ہے اور جو سمندری جانور پانی میں مر جاتے ہیں، ان کی سرانڈ کو ختم کر دیتا ہے۔

مفسر بیضاوی اس کی تشریح اس طرح کرتے ہیں:

"ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا باہر سے کسی چیز نے داخل ہو کر سمندر کو پھاڑ دیا ہے اور اس طرح یہ دھار میلوں تک گھستی چلی جاتی ہے اور بیچ میں پانی ذرا بھی مختلط نہیں ہوتا"

تفسیر کبیر میں ہے:

"المراد والبحر: العذب هذه الأودية ومن الاُجاج: البحار الكبار"

مشہور تفسیر جلالین میں ہے:

(موج البحرين) أرسلهما متجاوزين (هذا عذب فرات) شديد العذوبة (وهذا ملح أجاج) شديدالملوحة (جعل بينهما برزخا) حاجزا لا يختلط أحدهما بالآخر (وحجرا محجورا) أي سترا ممنوع به اختلاطهما

قاضی ثناء اللہ پانی پتی اس آیت کی تشریح اس طرح فرماتے ہیں:

"میٹھے سمندر سے مراد بڑے دریا ہیں جیسے جیل و فرات، اور سمندر سے یہی بڑا سمندر مراد ہے جو نمکین اور کڑوا ہے اور برزخ سے مراد وہ خطہ اَرضی ہے جو سمندر اور بڑے دریاؤں کے وسط میں حائل ہے"

(مَرَ‌جَ ٱلْبَحْرَ‌يْنِ يَلْتَقِيَانِ ﴿١٩﴾ بَيْنَهُمَا بَرْ‌زَخٌ لَّا يَبْغِيَانِ ﴿٢٠﴾)

ابن کثیر اس آیت کی تشریح کرتے ہیں:

"دونوں سمندر اپنی رفتار سے چل رہے ہیں۔ ایک کا پانی میٹھا ہے اور ایک کا کھارا، دونوں ملتے نہیں بلکہ ان میں حجاب ہے۔ پھر ابن جریر کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ اس سے مراد آسمان کا دریا ہے۔"

تفسیر مظہری میں اس آیت سے متعلق کچھ اقوال مزید درج ہیں:

"حسن بصری رحمة اللہ علیہ کے نزدیک بحر روم اور بحر ہند مراد ہیں۔ قتادہ رحمة اللہ علیہ بحر روم اور بحر فارس مراد پا لیتے ہیں اور یہاں برزخ سے جزائر مراد ہیں۔ مجاہد رحمة اللہ علیہ و ضحاک رحمة اللہ علیہ کے نزدیک یہاں آسمان کا سمندر اور زمین کا سمندر مراد ہے۔"

جدید مفسرین کا طرزِتفسیر

تفسیر حقانی میں اس آیت کے ذیل میں یہ نکتہ بیان کیا گیا ہے کہ

"انسان خود مرج البحرین ہے۔ ایک قوی ملکوتیہ کا دریا جو درحقیقت نہایت شیریں و خوشگوار اور دوسرا قوی حیوانیہ کا دریا جو تلخ ہے۔ ان دونوں کے درمیان حدِ فاصل عقلِ کامل ہے۔"

تفسیر عثمانی میں مولانا عثمانی رحمة اللہ علیہ مختلف دریاؤں کی مثالیں دے کر فرماتے ہیں:

"ان شواہد کے بعد خدا کی قدرت دیکھو کہ کھارے اور میٹھے پانی، دونوں دریاؤں کے پانی کہیں نہ کہیں مل جانے کے باوجود بھی کس طرح ایک دوسرے سے ممتاز رہتے ہیں۔۔۔اللہ تعالیٰ نے دونوں دریا الگ الگ اپنے مجریٰ میں چلائے اور دونوں کے درمیان میں، بہت جگہ زمین کو حائل کر دی اور اس طرح آزاد نہیں چھوڑا کہ دونوں زور لگا کر درمیان سے زمین کو ہٹا سکیں اور میٹھا کھاری اور کھاری میٹھا ہو جائے گویا باعتبار اوصاف کے ہر ایک دوسرے سے الگ رہنا چاہتا ہے۔

بعض مفسرین نے یہ رائے اختیار کی ہے کہ سطحِ زمین کے نیچے پانی کے دو مستقل نظام جاری ہیں۔ ایک سلسلہ آبِ شور کا ہے۔ دوسرا سلسلہ آبِ شیریں کا۔ کائنات کے واسطے دونوں اپنی اپنی جگہ نہایت ضروری ہیں۔

آیت میں اس حکمت و صنعت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ دونوں نظام پوری طرح قائم بھی ہیں اور پھر ایک دوسرے گڈمڈ اور مدغم بھی نہیں ہو پاتے۔

مفسر طنطاوی کہتے ہیں کہ

"یہ پانی جو میٹھا کڑوا ہوتا ہے۔ ایسے مرج البحرین کی مثالیں نیل، فرات، دجلہ، بحرِ ابیض، خلیج فارس وغیرہ میں ہیں اور یہ پانی کسی جگہ اپنے گرم اور ٹھنڈا ہونے کے باوجود بھی ایک خاص حد تک آپس میں نہیں مل پاتا۔"

تفہیم القرآن میں ان مقامات کی مزید وضاحت بھی مذکور ہے کہ

"خلیج فارس میں ایک مقام پر آبِ شور کے نیچے آبِ شیریں کے چشمے ہیں۔ ماضی قریب میں ایک امریکن آئل کمپنی بھی دوران کار خلیج کے انہیں چشموں سے شیریں پانی حاصل کرتی تھی۔ علاوہ ازیں بحرین کے مقام پر سمندر کی تہہ میں آبِ شیریں کے چشمے ہیں۔"

(مَرَ‌جَ ٱلْبَحْرَ‌يْنِ يَلْتَقِيَانِ ﴿١٩﴾ بَيْنَهُمَا بَرْ‌زَخٌ لَّا يَبْغِيَانِ ﴿٢٠﴾)

سید قطب اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں:

"کرہ ارض میں پانی کی اس انداز میں تقسیم محض اتفاقات میں سے نہیں ہے بلکہ یہ نظام اللہ کی طرف سے ایک عجیب انداز کے ساتھ مقدر ہے۔ سخت کڑوا پانی زمین کے تقریبا تین چوتھائی حصے کو محیط ہے اور اس کے بعض حصے بعض سے متصل ہیں۔ خشکی زمین کے صرف ایک چوتھائی حصہ پر محیط ہے اور نمکین کڑوے پانی کی یہ مقدار زمین کی فضا کو پاک رکھنے اور اس کی حفاظت کے لئے اور اسے انسانی زندگی کے لائق بنانے کے لئے ضروری ہے۔"

پھر سید قطب، سائنس اکیڈمی آف نیو یارک کے حوالے سے لکھتے ہیں:

"زمین سے ہمیشہ ہر وقت گیس اُٹھتی رہتی ہے جو زیادہ تر زہریلی ہے مگر واقعاتی زندگی میں وہ ہوا ظاہر نہیں ہوتی اور اس کی وہ نسبت قائم رہتی ہے جو زمین میں انسانی زندگی کے قیام وبقاء کے لئے ضروری ہے اور اس عظیم توازن کا ذریعہ پانی کا وہ بہت بڑا حصہ ہے جسے سمندر کہا جاتا ہے۔

تفسیر فی ظلال القرآن میں مزید فرماتے ہیں:

"تقریباتمام دریا اور نہریں سمندروں میں گرتے ہیں اور وہی زمین کے نمکین مادے سمندروں کی طرف منتقل کرتے ہیں۔ مگر دریا سمندروں پر نہیں چڑھتے حالانکہ وہ بلند ہوتے ہیں اور اسی طرح سمندردریاؤں پر نہیں چڑھ سکتے اور نہ ہی اپنی تلخی کو دریاؤن میں پھیلا سکتے ہیں۔ چنانچہ دریاؤں کی طبیعت و فطرت سمندر کی طبیعت کو نہیں بدل سکتی۔ دریا جو کہ میٹھا ہے، میٹھا ہی رہتا ہے اور سمندر جو کڑوا ہے وہ کڑوا ہی رہتا ہے۔ اللہ کی قدرت کا یہی پردہ ہے جو ان کے درمیان ہے جس کے باعث یہ دونوں اپنی اپنی حدوں میں رہتے ہیں۔"

قدیم و جدید طرزِ تفسیر کا فرق

قدیم مفسرین نے ان دو پانیوں سے مراد کہیں بحر روم اور بحر فارس لئے ہیں اور کہیں آسمان و زمین کا سمندر وغیرہ

عصر جدید کے مفسرین کرام نے جدید معلومات اور سائنسی ترقی سے فائدہ اٹھا کر ان دونوں پانیوں کی آپس میں نہ ملنے کی وجوہات بیان کی ہیں اور پھر ان مقامات تک کی نشاندہی کر دی ہے جہاں آبِ شور اور آبِ شیریں مل کر چلتے ہیں اور باہم مختلط نہیں ہوتے۔

سائنسی ارتقاء (جدید سائنس)

موریس بوکائیے لکھتے ہیں کہ یہ واقعہ نہایت عام ہے کہ سمندر کا کھارا پانی دریا کے تازہ پانی سے ایک دم نہیں مل جاتا۔ قرآن اس چیز کا حوالہ پانی کی اس رَو کے سلسلے میں دیتا ہے جہاں درمیان میں ایک باریک سا پردہ ہوتا ہے۔ دجلہ و فرات کی اسچوری قرار دیا جاتا ہے جہاں یہ دونوں دریا مل کر اس سمندر کی ابتداء کرتے ہیں جو سو میل سے زیادہ (جسے شط العرب کہا جاتا ہے) پر محیط ہے۔ خلیج کے اندرونی حصوں میں مدوجزر کا اثر اس خوش آئند واقعہ کو جنم دیتا ہے جس میں تازہ پانی خشکی کے اندر تک چڑھ آتا ہے اور اس طرح یقینی طور پر آبیاری ہو جاتی ہے۔

دو پانیوں کے سنگم انسان کے مشاہدے میں آ چکے ہیں مگر یہ واقعہ کس قانونی فطرت کے تحت ہوتا ہے۔ یہ بھی حال میں دریافت کیا گیا ہے جدید تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ رقیق اشیاء میں سطحی تناؤ (Surface Tension) کا ایک خاص قانون ہے اور یہی دونوں قسم کے پانی کو الگ الگ رکھتا ہے۔ چونکہ دونوں سیالوں کا تناؤ مختلف ہوتا ہے اس لئے وہ دونوں کو اپنی اپنی حد میں روکے رہتا ہے۔ آج کل اس قانون کو سمجھ کر جدید دنیا نے بے شمار فوائد حاصل کئے ہیں۔

قرآن نے (بَيْنَهُمَا بَرْ‌زَخٌ لَّا يَبْغِيَانِ) کے الفاظ بول کر اس واقعہ کی ایسی تعبیر کی جو قدیم مشاہدہ کے اعتبار سے بھی ٹکرانے والی نہیں تھی اور اب جدید دریافت پر بھی وہ پوری طرح حاوی ہے کیونکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ برزخ (آڑ) سے مراد وہ سطح تناؤ (Surface Tension) ہے جو دونوں قسم کے پانی کے درمیان پایا جاتا ہے اور جو دونوں کو مل جانے سے روکے ہوئے ہے۔

سطحی تناؤ کے قانون کو ایک سادہ سی مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ گلاس میں پانی بھریں تو وہ کنارے تک پہنچ کر فورا بہنے لگے گا بلکہ گلاس کے کنارے سے معمولی سا بلند ہو کر اوپر گولائی میں ٹھہر جائے گا۔

گلاس کے کناروں کے اوپر پانی کی مقدار کیسے ٹھہرتی ہے ، وجہ یہ ہے کہ رقیق اشیاء کی سطح کے سالمات (Molecules) کے بعد چونکہ کوئی چیز نہیں ہوتی، اس لئے ان کا رخ اندر کی طرف ہو جاتا ہے۔ اس طرح سالمات کے درمیان کششِ اتصال بڑھ جاتی ہے اور قانونِ اتصال (Cohosion) کے عمل کی وجہ سے پانی کی سطح کے اوپر ایک قسم کی لچک دار جھلی (Elastic Flim) سی بنی جاتی ہے اور پانی گویا اس کے غلاف میں اس طرح ملفوف ہو جاتا ہے۔ جیسے پلاسٹک کی سفید جھلی میں پسا ہوا نمک ملفوف ہو جاتا ہے۔سطح کا یہی پردہ اوپر اُبھرے ہوئے پانی کو روکتا ہے ۔ یہ پردہ اس حد تک قوی ہے کہ اگر اس کے اوپر سوئی ڈال دی جائے تو وہ ڈوبے گی نہیں بلکہ پانی کی سطح پر تیرتی رہے گی، اسی کو سطحی تناؤ کہا جاتا ہے اور یہی وہ سبب ہے جس کی بنا پر تیل اور پانی ایک دوسرے میں حل نہیں ہوتے اور یہی وہ آڑ ہے جس کی وجہ سے کھارے پانی اور میٹھے پانی کے دو دریا مل کر بہتے ہیں۔ مگر ایک کا پانی دوسرے میں شامل نہیں ہوتا۔

مذہب و سائنس کا باہمی تعلق

قرآن حقائق اور سائنسی علوم میں کوئی تباین و تضاد نہیں۔ ان کا باہم جو تعلق ہے، وہ کیا ہے؟ مولانا وحید الدین خان اِسی کا جواب دیتے ہیں:

: مذہن اور سائنس دونوں ہی ایمان بالغیب پر عمل کرتے ہیں۔ مذہب کا اصل دائرہ اشیاء کی اصل و آخری حقیقت متعین کرنے کا دائرہ ہے۔ سائنس اس وقت تک مشاہداتی علم ہے جب وہ ابتدائی اور خارجی مظاہر پر کلام کر رہی ہو جہاں وہ اشیاء کی آخری اور حقیقی حیثیت متعین کرنے کے میدان میں آتی ہے ۔ جو کہ مذہب کا اصلی میدان ہے تو وہ بھی ٹھیک اسی طرح "ایمان بالغیب" کا طریقہ اختیار کرتی ہے جس کا "الزام" مذہب کو دیا جاتا ہے کیونکہ اس میدان میں اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔"

قرآن کریم کی فوقیت

قرآن کریم جس طرح ڈیڑھ ہزار برس کے دور میں برحق تھا، آج بھی وہ اسی طرح برحق ہے۔ زمانے کے گزرنے سے اس کی صداقت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ یہ واقعہ اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ یہ ایک ایسے ذہن سے نکلا ہوا کلام ہے جس کی نگاہ ازل سے ابد تک محیط ہے جو سارے حقائق کو اپنی اصل شکل میں جانتا ہے جس کی واقفیت زمانے اور حالات کی پابند نہیں۔ اگر یہ محدود نظر رکھنے والے انسان کا کلام ہوتا تو بعد کا زمانہ اسی طرح اس کو غلط ثابت کر دیتا، جیسے ہر انسانی کلام کے بعد زمانے میں غلط ثابت ہو چکا ہے، یہی حال سائنس کا بھی ہے کہ ذہنی ارتقاء اور مشاہدات و تجربات کی وسعت کے بعد نظریات یکسر تبدیل ہو جاتے ہیں۔

کائنات کی بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن کے متعلق دور سابق کے لوگ کچھ نہ کچھ جانتے تھے مگر ان کا یہ علم ان دریافتوں کے مقابلے میں بے حد ناقص اور ادھورا تھا جو بعد کی علمی ترقی کے دور میں انسان کے سامنے آئیں۔ قرآن کی شکل یہ تھی کہ وہ کوئی سائنسی کتاب نہیں تھا۔ اس لئے اگر وہ عالم فطرت کے بارے میں یکایک نئے نئے انکشافات لوگوں کے سامنےرکھنا شروع کر دیتا ہے تو انہیں چیزوں پر بحث چھڑا جاتی اور اس کا اصل مقصد ذہن کی اصلاح پسِ پشت چلا جاتا۔ یہ قرآن کا اعجاز ہے کہ اس نے علمی ترقی سے بہت پہلے کے زمانے میں اس طرح کی چیزوں پر کلام کیا اور ان کے بارے میں ایسے الفاظ استعمال کئے، جس میں دور سابق کے لوگوں کے لئے تو وحشت کا کوئی سامان نہیں تھا، اور اسی کے ساتھ بعد کے انکشافات کا بھی وہ پوری طرح احاطہ کئے ہوتے تھے۔

یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ سچے دین اور سائنس میں کبھی تضاد نہیں ہو سکتا۔ اگر سائنس نے کوئی دعویٰ کیا اور مذہب ۔۔۔ اسلام۔۔۔ نے اس کی تائید نہیں کی تو تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ سائنس نے اپنی غلطی کو مان کر، مذہب کے در پر سر بسجود ہونا پڑا۔

اس لئے ہم اربابِ علم و علماء سائنس کو یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ انہیں "قرآنی سائنس" پر کام کرنا ہو گا۔ اس لئے کہ آج دنیا میں پائیدار امن اور حقیقی خوشحالی ، محض سائنس کی بدولت نہیں بلکہ قرآن و دینی سائنس کی بدولت آ سکتی ہے کیونکہ قرآن کی بنیاد پر استوار سائنس میں کسی بھی انداز میں انسان کا استیصال نہیں ہو گا۔ جغرافیائی و لسانی اور دیگر امتیازات کو روا نہیں رکھا جائے گا بلکہ اس میں کل انسانیت کی فلاح و ترقی مقصود ہو گی اور آج دنیا اسی ترقی کی تلاش میں ہے۔

اور اسی پر کام۔۔۔ بھرپور کام۔۔۔ کرنے کی اشد ضرورت ہے

(وَلَقَدْ يَسَّرْ‌نَا ٱلْقُرْ‌ءَانَ لِلذِّكْرِ‌ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ‌) (سورة القمر)


حوالہ جات

الاتقان فی علوم القرآن،ج:2،ص172

ابو محمد سلامہ، منہج الفرقان، ج:2، ص:4

الاتقان۔ج:2،ص174

اردو انسائیکوپیڈیا،ص565

الرعد:3

لقمان:10

الزخرف:12

یٰسین:36

الشوریٰ:11

الذاریات:49

الرعد:4

تفسیر کشاف، ج:2، ص:512

یٰسین:36

معالم تنزیل، ج:4 ص:12

تفسیر قرطبی، ج:15،ص:36

تفسیر بیضاوی:328، تفسیر خازن، ج:3،ص:52

تفسیر کشاف۔ ج:4،ص:15

الذاریات:49

تفسیر القرآن العظیم، ج:5، ص:114

تدبر قرآن، ج:5 ، ص421

تفسیر القرآن۔ ج:2،ص:620

تفسیر ماجدی، ج:2، ص:886

تفسیر فی ظلال القرآن، ج:5،ص208

جواہر القرآن، ج:17، ص:150

تفہیم القرآن، ج:4، ص:259

الحجر:22

ضیاء القرآن، ج:6، ص:178

الزخرف:12

تفہیم القرآن، ج:5، ص526

الذاریات:49

فی ظلال القرآن، ج:6، ص471

تفہیم القرآن، ج:5، ص:526

جواہر القرآن، ج3، ص:198،9

ڈاکٹر یلوک نور باقی، قرآنی آیات اور سائنسی حقائق (مترجم سید فیروز شاہ) ص:31 تا35

الفرقان:53

الرحمٰن:19،20

تفسیر القرآن العظیم (ابن کثیر) ج:3، ص:2199

تفسیر بیضاوی، ص:5

تفسیر کبیر، ج:23، ص۔۔۔۔

تفسیر جلالین، ص:304

تفسیر مظہری، ج:9، ص:134

الرحمٰن،: 20،19

تفسیر ابن کثیر، ج:5، ص:173

تفسیر مظہری، جج:12، ص:28

تفسیر حقانی، ج:5، ص:234

تفسیر عثمانی۔ ص:486

تفسیر ماجدی، ج:3، ص:1062

جواہر القرآن، ج:12، ص:221

تفہیم القرآن، ج:3، ص: 458

الرحمٰن، :20،19

فی ظلال القرآن، ج:6، ص:606

موریس بوکائیے، بائیبل قرآن اور سائنس (مترجم، ثناءالحق صدیقی، ص:291)

وحید الدین خان، مولانا، مذہب و جدید چیلنج، ص:165

وحید الدین خان، مولانا، علم جدیدکا چیلنج، ص:67