خلفائے راشدین کا انتخاب

خلافت ابو بکرؓ کا پس منظر

امامت قریش میں ہو گی

حضور اکرم ﷺ نے اپنی زندگی میں ہی یہ خبر دے دی تھی کہ ان کے بعد ان کے جانشین (خلیفہ) قبیلہ قریش سے ہوں گے ۔ اور ساتھ ہی اس کی وجہ بھی بیان فرما دی تھی۔ اس سلسلہ میں بہت سی احادیث وارد ہیں اور امام بخاریؒ نے تو ''الأمراء من قریش'' (کتاب الاحکام) کے عنوان سے ایک مستقل باب بھی باندھا ہے۔ چند ایک احادیث ذیل میں درج کی جاتی ہیں۔

1. الناس تبع لقریش في ھذا الشأن مسلمھم تبع لِمُسْلِمِھم وکافرھم تبع کافرھم (مسلم، کتاب الإمارة باب الناس تبع لقریش والخلافة في قریش)

''موجودہ صورت حال یہ ہے کہ لوگ قبیلہ قریش ہی کی پیروی کر سکتے ہیں۔ جو مسلمان ہیں وہ مسلمان قریش کی اور جو کافر ہیں وہ کافر قریش کی۔''

گویا امر خلافت کو فیصلہ قریش سے منسوب ہونے کی وجہ یہ تھی کہ عرب قبائل قریش کے علاوہ کسی دوسرے فیصلہ کی اطاعت گوارا ہی نہ کر سکتے تھے۔

آپ نے یہ بھی فرما دیا تھا کہ میرے بعد خلفا قبیلہ قریش سے ہوں گے اور ۱۲ خلفاء تک اسلام غالب رہے گا اور یہ سب قبیلہ قریش سے ہوں گے۔

2. عن جابر بن سمرة یقول سمعت النبي ﷺ یقول: لا یزال الإسلام عزیزا إلی اثني عشر خلیفة ثم قال کلمة لم أفھمھا۔ فقلت لأبي ما قال؟ فقال کلھم من قریش (مسلم، ایضا) (بخاری کتاب الاحکام۔ باب الاستخلاف)

''جابر بن سمرہؓ کہتے ہیں میں نے نبی ﷺ کو یہ کہتے سنا کہ ''اسلام بارہ خلفا تک غالب رہے گا۔'' پھر ایک فقرہ کہا جو میں سمجھ نہ سکا۔ میں نے اپنے باپ سے کہا کہ آپ نے کیا فرمایا ہے؟ میرے باپ نے کہا کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے۔ یہ سب قریش سے ہوں گے۔''

علاوہ ازیں ایسے واضح اشارات بھی ملتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ خلافت انصار میں نہیں ہو گی۔ مثلاً حضور اکرم ﷺ نے اپنی مرض الموت میں جو آخری خطبہ دیا اس میں مہاجرین کو یہ وصیت فرمائی کہ انصار سے نیک سلوک کرنا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

3. اقبلوا عن محسنھم وتجاوزوا عن مسیئھم (بخاری۔ کتاب المناقب باب ایضاً)

''انصار میں سے جو کوئی نیک ہو اس کی قدر کرنا اور جو بُرا ہو اس کے قصور سے درگزر کرنا۔''

مہاجرین سے اس طرح کی سفارش کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپ کو علم ہو چکا تھا کہ میرے بعد خلافت انصار کو نہیں بلکہ مہاجرین کو ملنے والی ہے۔

اسی طرح آپ ﷺ نے انصار کو فرمایا:

4. إنکم ستلقون بعدي أثرة فاصبروا حتی ............ (البخاری۔ حوالہ ایضاً)

''تم کو میرے بعد ناخوش گواری پیش آئے گی۔ تو تم صبر کرنا۔ یہاں تک کہ تم مجھ سے حوض کوثر پر آکر ملاقات کرو۔''

اس صبر کی تلقین سے بھی یہ واضح ہے کہ امارت انصار میں نہیں ہو گی۔ اور اس تلقین کا پس منظر یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ایک مرتبہ انصار کو بحرین کا ملک بطور جاگیر دینا چاہا تھا تو انصار نے یوں جواب دیا تھا:

5. عن أنس بن مالك قال دعا النبي ﷺ الأنصار إلی أن یقع لھم البحرین فقالوا: لا إلا أن تقطع الإخوان من المھاجرین مثلھا۔ قال: إما لا فاصبروا حتی تلقوني فإنه سیصیبکم بعدي أثرة۔ (بخاری، کتاب المناقب۔ باب قول النبي لأنصار اصبروني حتی تلقوني علی الحوض)

انس بن مالک کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے انصار کو بلایا اور ان کو بحرین کا ملک بطور جاگیر کے دنیا چاہا۔ انہوں نے کہا ''ہم تو اس وقت تک نہیں لیں گے جب تک کہ ہمارے مہاجرین بھائیوں کو بھی ایسا ہی ملک نہ ملے۔'' آپ ﷺ نے فرمایا۔ ''اگر اب تم قبول نہیں کرتے (امارت و حکومت) تو پھر مجھ سے ملاقات تک (زندگی بھر) صبر کئے رہنا۔ میرے بعد تمہیں (امارت سے محرومی) کی ناخوشگواری پیش آنے والی ہے۔''

حضرت ابو بکرؓ کی خلافت کے متعلق واضح ارشادات

آپ ﷺ نے قریش میں سے حضرت ابو بکرؓ کو خلیفہ نامزد کرنے کا خیال بھی فرمایا تھا لیکن بعد میں یہ ارادہ ترک کر دیا کیونکہ مشیت خداوندی یہی تھی کہ آپ ﷺ کے بعد حضرت ابو بکرؓ ہی خلیفہ منتخب ہوں گے۔ جیسا کہ آپ ﷺ کے درج ذیل ارشاد سے واضح ہے۔

1. لقد ھممت اَو  أردت أن أرسل إلی أبي بکر وابنه وأعھد أن یقول القائِلون وَیَتَمَنَّی المتمتون ثم قلت: یأبی الله ویدفع المؤمنون أو یدفع اللّٰه ویأبی المؤمنون (بخاری۔ کتاب المرضٰی)

میں نے یہ قصد کیا کہ کسی کو بھیج کر ابو بکرؓ اور ان کے بیٹے عبد الرحمان کو بلا بھیجوں اور ابو بکرؓ کو اپنا جانشین کر جاؤں تاکہ میرے بعد کہنے والے کچھ اور کہیں اور آرزو کرنے والے (خلافت کی) آرزو کرنے لگیں۔ پھر میں نے (دل میں) کہا۔ خود اللہ کسی اور کو خلیفہ نہ ہونے دے گا۔ نہ مسلمان اور کسی کی اطاعت قبول کریں گے۔

اسی مضمون کی متعدد روایات مسلم (باب فضائل ابو بکرؓ) میں اس طرح وارد ہیں:

2. عن عائشة قالت: قال لي رسول اللّٰہ ﷺ في مرضه ادعي لي أبَا بکرأ با ك وأخَاك حتّٰی أکتب کتابا فإنّي أخاف أن یتمنّٰی متمنٍ ویقول قائل أنا أولٰی ویأبی اللّٰه والمؤمنون اِلَّا أبا بکر۔

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں۔ مجھے رسول اللہ ﷺ نے اپنی مرض موت کے دوران فرمایا: اپنے باپ ابو بکر اور اپنے بھائی (عبد الرحمان) کو بلا بھیجو تاکہ میں وصیت لکھ دوں۔ مجھے ڈر ہے کہ حریص اس کی آرزو کریں گے اور کچھ کہنے والے یہ بھی کہیں گے کہ خلافت کا حق دار میں زیادہ ہوں۔ مگر ابو بکرؓ کی خلافت کے سوا نہ ہی اللہ کسی دوسرے کی خلافت کو تسلیم کرے گا اور نہ مسلمان۔''

3. عن أبي ملیکة قال سمعت عائشة وسئلت من کان رسول اللّٰہ ﷺ مستخلفا لو استخلفه؟ قالت: أبو بکر ''قیل لَھَا ''ثم من بعد أبي بکر؟'' قالت: ''عمر'' ثم قیل لھا: ''من بعد عمر؟'' قالت أبو عبیدة بن الجراح،ثم انتھت إلی ھذا

''ابو ملیکہؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہؓ سے سنا اور پھر ان سے پوچھا کہ اگر رسول اللہ ﷺ کسی کو خلیفہ بناتے تو کسے بناتے۔'' فرمانے لگیں: ''ابو بکرؓ۔'' پوچھا گیا ''حضرت ابو بکرؓ کے بعد پھر کون؟'' فرمانے لگیں۔ ''عمرؓ''۔ پھر پوچھا گیا۔ ''عمرؓ کے بعد پھر کون؟'' فرمایا: ابو عبیدہ بن الجراح۔'' اور یہاں بات ختم کر دی۔''

حضرت ابو بکرؓ کی خلافت سے متعلق واضح ارشادات

علاوہ ازیں بہت سے ایسے واقعات بھی ملتے ہیں جو آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکرؓ کی خلافت پر صریح دلالت کرتے ہیں۔ مثلاً:

1. عن الجبیر ابن مطعم عن أبیه قال أتت النبي ﷺ امرأة فکلّمتْه في شيءٍ فأمرھا أن ترجع إلیه: قالت إن جئتُ ولم أجدك کأنھا ترید الموت قال فان لم تجدني فأتی أبو بکر۔'' (بخاری کتاب الاحکام۔ باب الاستخلاف) (مسلم باب فضائل ابو بکر)

''جبیر بن مطعم کے والد کہتے ہیں: ایک عورت آنحضرت ﷺ کے پاس آئی اور آپ ﷺ سے ایک امر میں کچھ عرض کیا۔ آپ نے فرمایا: ''پھر کسی وقت آنا۔'' اس نے کہا: ''یا رسولؐ اللہ! اگر میں پھر آؤں اور آپ کو نہ پاؤں، یعنی آپ کی وفات ہو گئی ہو تو کیا کروں۔'' فرمایا: اگر مجھے نہ پائے تو حضرت ابو بکرؓ کے پاس آئیو۔''

حضور اکرم ﷺ کی زندگی میں (مرض الموت میں) مسجد نبوی میں جماعت کی امامت حضرت ابو بکرؓ کراتے تھے جس کا حکم خود حضور اکرم ﷺ نے دیا تھا۔

2. عن عائشة أن النبي ﷺ قال لھا مُریي أبا بکر یصل بالناس قالت إنه رجل أسِیْفٌ متی تقم مقامك۔ رَقَّ، فعاد، فعادت۔ قال شعبة: فقال في الثالثة أو الرابعة: إن کن صواحب یوسف مروا أبا بکر (بخاری، کتاب بدءالخلق،باب قول اللّٰہ تعالٰی لقد کان في یوسف وإخوته.....)

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں رسول اللہ ﷺ نے مرض الموت میں فرمایا ابو بکرؓ سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں'' حضرت عائشہؓ نے عرض کیا۔ وہ تو نرم دل انسان ہیں۔ آپ کی جگہ کھڑے ہوں تو ان پر رقت طاری ہو جائے گی۔ آپ نے دوبارہ وہی بات دہرائی۔ حضرت عائشہؓ نے پھر وہی جواب دیا۔ حضرت شعبہؓ (اس حدیث کے راوی) کہتے ہیں آپ ﷺ نے تیسری یا چوتھی بار بھی یہی فرمایا اور کہا۔ ''تم تو حضرت یوسف والی عورتیں ہو (ظاہر کچھ باطن کچھ) ابو بکر سے کہو نماز پڑھائیں۔

3. عن أبي بردة أبي موسٰی عن أبیه قال مرض النبي ﷺ فقال مروا أبا بکر فلیصل بالناس فقالت إن أبا بکر؟ رجل رقیق القلب فقال مثله فقالت مثله فقال مروة فإنّ کنّ صواحب یوسف فَأمَّ أبو بکر في حیاة النبي ﷺ فقال حسین .... زائدة رجل رقیق (بخاری حوالہ ایضا)

''ابو بردہ اپنے والد موسیٰ اشعریؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ بیمار ہوئے تو فرمایا ابو بکرؓ سے کہو وہ نماز پڑھائیں۔ حضرت عائشہؓ نے کہا وہ تو (نرم دل) انسان ہیں۔ آپ نے پھر وہی حکم دیا۔ حضرت عائشہؓ نے پھر وہی کچھ عرض کیا۔ آپ نے فرمایا ابو بکرؓ سے کہو نماز پڑھائیں تم تو حضرت یوسف کی ساتھ والیاں ہو۔ پھر آپ کی زندگی بھر (وفات تک) حضرت ابو بکرؓ لوگوں کی امامت کراتے رہے۔ حسین بن علی جعفی نے اس حدیث کو زائدہ سے روایت کیا۔ یعنی ابو بکر نرم دل انسان ہیں۔''

4. عن أنس بن مالك أن المسلمین بیناھم في صلوة الفجر من یوم الإثنین وأبو بکر یصلي لھم لَم یفجاھم إلا رسول اللّٰه ﷺ قد کشف ستر حجرة عائشة فنظر إلیھم وھم في صفوف الصلوٰة ثم تبسم یضحك فنکص أبو بکر علٰی عقبیه لیصل الصف وظن أن رسول اللّٰه ﷺ یرید أن یخرج إلی الصلوٰة، قال أنس: وھَمَّ المسلمون أن یفتتنوا في صلاتھم فرحًا برسول اللّٰہ ﷺ۔ فأشار إلیھم بیدہ رسول اللّٰه ﷺ أن اتمُّوا صلاتکم۔ ثم دخل الحجرة وَأرحٰی الستر۔ (بخاری۔ کتاب المغازی باب مرض النبيﷺ)

''حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ مسلمان پیر کے دن صبح کی نماز حضرت ابو بکرؓ صدیق کے پیچھے پڑھ رہے تھے۔ اتنے میں وہ چونک گئے۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہؓ کا پردہ اٹھایا۔ مسلمانوں کو دیکھا کہ وہ نماز میں صفیں باندھے کھڑے ہیں۔ آپ ﷺ مسکرا کر ہنس دیئے۔ یہ دیکھ کر حضرت ابو بکرؓ ایڑیوں کے بل پیچھے سر کے تاکہ صف میں شامل ہو جائیں۔ وہ سمجھے کہ آنحضرت ﷺ نماز کے لئے برآمد ہوا چاہتے ہیں۔ انسؓ کہتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کو دیکھ کر مسلمانوں کو اتنی خوشی ہوئی کہ نماز توڑنے ہی کو تھے کہ آپ ﷺ نے ہاتھ سے اشارہ فرمایا کہ اپنی نماز پوری کرو۔ پھر حجرے کے اندر داخل ہو گئے اور پردہ ڈال لیا۔

اور یہ تو ظاہر ہے کہ اسلامی نقطۂ نظر سے نماز کی امامت اور ملک کی امامت فرد واحد کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔

5. حضور اکرم ﷺ نے ۹ ؁ھ میں حضرت ابو بکرؓ کو اپنے قائم مقام کی حیثیت سے امیرُ الحج بنا کر بھیجا۔

أن أبا ھریرة أخبرہ أن أبا بکر الصدیق بعثه في الحجة الّتي أمر علیھا رسول الله ﷺ قبل حجةالوداع یوم النحر في رھط یوذن في الناس أن لا یحج البیت بعد العام لمشرك ولا یطوف بالبیت عُریانٌ۔ (بخاری۔ کتاب المناسک۔ باب لا یطوف بالبیت عریان)

''انہیں حضرت ابو ہریرہؓ نے بتلایا کہ ابو بکر صدیقؓ نے ان کو چند اور لوگوں کے ساتھ اس حج میں بھیجا جو حجۃ الوداع سے پہلے تھا۔ جس میں آنحضرت ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو امیر مقرر کیا تھا تاکہ وہ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو لوگوں کو منادی کر دیں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک بیت اللہ کا حج نہ کرے اور نہ ہی کوئی ننگا بیت اللہ کا طواف کرے۔''

حج کی امارت بھی اس کی طرف واضح اشارہ تھا کہ آپ ﷺ کے بعد ملت کی امامت کی ذمہ داری حضرت ابو بکرؓ پر ہی ہو گی۔

اور درج ذیل حدیث میں حضرت ابو بکرؓ پھر اس کے بعد حضرت عمرؓ کی صرف خلافت کا ہی اشارہ نہیں تھا بلکہ ان کی مدّت خلافت اور انتظام مملکت پر بھی روشنی پڑتی ہے۔

6. عن أبي ھریرة قال سمعت رسول اللّہ ﷺ یقول: بینا أنا نائم رأیتني عَلٰی قلیب علیھا دَلْوٌ فنزعت منھا ما شاء اللّٰہ، ثم أخذه ابن أبي قحافة فنزع بھا ذنوبًا أو ذنوبین وفي نزعه ضعف واللّٰه یغفر له ضعفه۔ ثم استحالت غربًا فأخذھا ابن الخطاب فلم أرَ عَبْقَرِیًّا من الناس ینزع نزع عمر حتّٰی ضرب الناس بعطنٍ۔ (بخاری۔ کتاب مناقب۔ باب فضائل ابو بکر)

حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا۔ آپ فرماتے تھے۔ ''ایک بار ایسا ہوا، میں سو رہا تھا۔ میں نے خود کو ایک کنوئیں پر دیکھا جس پر ایک ڈول رکھا تھا۔ میں نے اس کنوئیں سے چند ڈول نکالے جتنے اللہ کو منظور تھے۔ پھر ابو بکرؓ نے ڈول پکڑا اور ایک یا دو ڈول نکالے مگر کمزوری کے ساتھ۔ اللہ اس کی کمزوری معاف فرمائے۔ پھر وہ ڈول ایک بڑا جرسہ بن گیا۔ عمرؓ نے اسے پکڑا اور میں نے ایسا شہ زور پہلوان نہیں دیکھا جو اس کی طرح پانی کھینچتا ہو۔ اس نے اتنا پانی نکالا کہ لوگوں نے اپنے اونٹوں کو حوض سے سیراب کر لیا۔

افضلیتِ حضرت ابو بکرؓ

امت مسلمہ کا امیر یا خلیفہ بھی وہی شخص ہو سکتا ہے جو سب سے بہتر ہو۔ حضرت ابو بکرؓ کی دیگر تمام صحابہؓ پر افضلیت کی بہت سی روایات ملتی ہیں۔ مثلاً

1. وعن أبي سعید الخدري....... وکان أبو بکر أَعْلَمَنا فقال رسول اللّٰه ﷺ: أَنَّ مِن أَمَنّ الناسِ عَلَیَّ في صحبته وساله أبا بکر ولو کنت متّخذًا خلیلًا غیر ربّي لا تخذت أبا بکر ولٰکن أخوَّة الإسلام ومُؤدَّته۔ لا یبقین باب في المسجد إلا سُدّإلا باب أبي بکر (بخاری۔ کتاب المناقب۔ فضائل أبو بکر)

حضرت ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں۔ اور حضرت ابو بکرؓ سب صحابہؓ سے زیادہ ظلم والے تھے اور آنحضرت ﷺ نے (اسی خطبہ میں) یہ بھی فرمایا۔ ''صحبت کے لحاظ سے بھی اور مال کے لحاظ سے بھی ابو بکرؓ کا مجھ پر احسان اور سب لوگوں سے زیادہ ہے۔ اور اگر میں اپنے پروردگار کے سوا کسی اور کو جانی دوست بناتا تو ابو بکرؓ کو بناتا۔ البتہ اسلام کا بھائی چارہ اور محبت ان سے ہے، دیکھو مسجد کی طرف ابو بکرؓکے دروازہ کے سوا باقی سب کے دروازے بند کر دیئے جائیں۔

2. عن ابن عمر قال کنا نخیِّرُ من الناس في زمن النبي ﷺ فنخیَّرُ أبا بکر ثم عمر بن الخطاب ثم عثمان بن عفان (حوالہ مذکور)

(عبد اللہ) بن عمرؓ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں حضرت ابو بکرؓ کو سب سے افضل سمجھتے تھے پھر حضرت عمرؓ کو پھر حضرت عثمان بن عفّانؓ کو۔

3. ایک دفعہ حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ میں کچھ تکرار ہو گئی۔ اسی حالت میں پہلے حضرت ابو بکرؓ حضور ﷺ کے پاس آئے اور واقعہ بیان کر کے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا۔ پھر حضرت عمرؓ حضرت ابو بکرؓ کا پیچھا کرتے ہوئے حضور ﷺ کے پاس آئے اور انہوں نے بھی اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا (یعنی دونوں نے اپنی اپنی غلطی کا اعتراف کیا) پھر بھی حضور ﷺ نے یوں فرمایا:۔

إن اللّٰه بعثني إلیکم فقلتم کذبت وقال أبو بکر صدق واساني بنفسه وما لِه ھل أنتم تارکوا إلی صاحِبي مَرَّتَیْنِ فما أوْذِي بعدھا (حوالہ مذکور)

اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہاری طرف مبعوث فرمایا تو تم نے مجھے جھوٹا کہا اور ابو بکرؓ نے مجھے سچا کہا۔ پھر اس نے مال اور جان سے میری خدمت کی۔ تو پھر کیا تم میرے دوست کو ستانا نہیں چھوڑتے؟'' (دوبار ایسا کہا) اس کے بعد حضرت ابو بکرؓ کو کسی نے نہیں ستایا۔

4. عن محمد بن الحنفیة قال: قلت لأبي أي الناس خَیْرٌ بعد رسول اللّٰه ﷺ قال ''أبو بکر'' قلت ثُمّ مَنْ؟ قال ''عمر'' وخشیت أن یقول عثمان قلتُ ثمّ أنت؟ قال ما أنا إلا رجلا من المسلمین۔ (حوالہ مذکور)

محمد بن حنیفہؒ کہتے ہیں میں نے اپنے والد (حضرت علیؓ) سے پوچھا۔ آنحضرت ﷺ کے بعد سب لوگوں سے بہتر کون ہے؟ آپ نے فرمایا۔ ''ابو بکرؓ'' میں نے پوچھا ''پھر کون؟'' فرمایا۔ ''عمر'' اب میں ڈرا کہ اب کی مرتبہ عثمان نہ کہہ دیں لہٰذا میں نے خود ہی کہہ دیا ''پھر آپ؟'' فرمانے لگے۔ میں تو عام مسلمانوں میں سے ایک شخص ہوں۔''

5. عن ابن عباس قال إني لواقفٌ علی قوم یَدَعَوُ اللّٰه لعمر بن الخطاب وقد وُضِعَ علٰی سریره إذا رجل من خلفي قد وضع مرفقة علی منکبي یقول: رحمك اللّٰه إن کنتُ لأرجوا أن یجعلك اللّٰه مع صاحبیك لأنيکثیرا ما کنت أسْمَعُ رسول اللّٰه ﷺ یقول کنت وأبو بکر وعمر، وفعلت وأبو بکر وعمر، وانطلقت وأبو بکر وعمر، فإذا کنت لأرجوا أن یجعلك اللّٰہ معھما فالتفت فإذا ھو علي ابن أبي طالب (ایضا)

''حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں میں ان لوگوں میں کھڑا تھا جو حضرت عمرؓ کے لئے مغفرت کی دعا کر رہے تھے اور ان کا جنازہ رکھا ہوا تھا۔ اتنے میں ایک شخص نے اپنی کہنی میرے مونڈھے پر رکھی اور کہنے لگا۔ اللہ تم پر رحم کرے مجھے یہی امید ہے کہ خدا تمہیں اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ رکھے گا۔ کیونکہ میں اکثر رسول اللہ ﷺ سے سنا کرتا تھا، کہا کرتے تھے۔ فلاں جگہ میں تھا اور ابو بکرؓ اور عمرؓ۔ میں نے اور ابو بکرؓ او عمرؓ نے یہ کام کیا۔ میں اور ابو بکرؓ اور عمرؓ چل پڑے۔ سو مجھے یہی امید ہے کہ اللہ آپؓ کو ان کے ساتھ رکھے گا۔ میں نے مُڑ کر دیکھا تو یہ کہنے والے حضرت علیؓ ابن ابی طالب تھے۔''

امتناع طلب امارت و مناصب

جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ خلیفہ ابو بکرؓ کو نامزد کرنے کا خیال حضور ﷺ کو صرف اس وجہ سے آیا تھا کہ مبادا امارت کے لئے کچھ لوگ آرزو کریں اور کچھ دوسرے یوں کہیں کہ وہ تو ہمارا حق تھا اور ہم سے نا انصافی ہوئی وغیرہ وغیرہ ...... تو حضور اکرم ﷺ نے اپنے کئی ارشادات میں بالعموم یہ وضاحت فرما دی کہ امارت یا منصب طلب کرنا یا اس کی خواہش کرنا ایک مذموم فعل ہے۔ چنانچہ درج ذیل ارشادات ملاحظہ ہوں۔

1. عن عبد الرحمٰن بن سمرة قال: قال لي رسول اللّہ ﷺ یا عبد الرحمن بن سمُرَة! لا تسئل الإمارة فإن أعطیتھا عن مسئلة وکلت إلیھا وإن أعطیتھا من غیر مسئلة أعِنْتَ علیھا۔ (بخاري۔ کتاب الأحکام۔ باب من سأل الإمارة) (مسلم۔ کتاب الإمارة باب النهي عن طلب الإمارة والحرص علیھا۔)

حضرت عبد الرحمٰن بن سمرہ کہتے ہیں مجھ سے آنحضرت ﷺ نے فرمایا! اے عبد الرحمان بن سمرۃ! حکومت اور سرداری کی درخواست نہ کیجیو۔ اگر درخواست پر تجھے ملے گی تو تمام تر ذمہ داری تمہی پر ہو گی اور تمہیں بغیر درخواست مل جائے تو اللہ تیری مدد کرے گا۔

2. عن أبي موسیٰ قال: دخلت علی النبي ﷺ أنا ورجلان من بني عمي فقال أحدا الرجلین: یا رسول اللّٰه! أمِّرنا علی بعض وَلَّاك اللّٰه عزوجل وقال الآخر مثل ذلك فقال: ''أما واللّٰه لا نولي علی ھذا العمل أحدا یَسْأله ولا أحدا حرص علیه (مسلم کتاب الإمارة، باب النھي عن طلب الإمارة والحرص علیھا) (بخاری، کتاب الاحکام، باب ما یکرہ من الحرص علی الإمارة)

''حضرت ابو موسیٰؓ کہتے ہیں میں اور میرے دو چچا زاد بھائی آنحضرت ﷺ کے پاس گئے۔ ان میں سے ایک نے کہا۔ ''یا رسول اللہﷺ! اللہ نے آپ کو حکومت بخشی ہے اس کے کچھ حصہ پر ہمیں حاکم بنا دیجیے۔'' پھر دوسرے نے بھی ایسی ہی بات کہی۔ آپ ﷺ نے فرمایا ''خدا کی قسم! ہم کسی ایسے آدمی کو حاکم نہیں بنایا کرتے جو اس کے لئے درخواست کرے اور نہ ہی کسی ایسے شخص کو حاکم بناتے ہیں جو اس کی حرص رکھتا ہو۔''

وفي روایة قال: لا نستعمل علٰی عملنا من أراده (متفق علیہ۔ حوالہ مذکور)
ایک دوسری روایت میں ہے۔ آپ نے فرمایا۔ '' ہم اپنے انتظامی امور میں کسی ایسے شخص کو شریک نہیں کرتے جو اس کا ارادہ رکھتا ہو۔

3. عن أبي ذرٍ قال: قلت: یا رسول اللّٰه ألا تستعملني؟'' قال فضرب بِیَده علٰی منکبي ثم قال: یا أبا ذر! إنك ضعیف وإنھا أمانة وإنھا یوم القیٰمة خزي وندامة إلا من أخذھا بحقھا وأدّی الذي علیه فیھا۔ (مسلم۔ حوالہ مذکور)

حضرت ابو ذر (غفاریؓ) سے روایت ہے میں نے کہا۔ ''اے اللہ کے رسولؐ! کیا آپ مجھے حاکم نہیں بنا دیتے؟'' حضور اکرم ﷺ نے اپنا ہاتھ میرے مونڈھے پر رکھا اور فرمایا: ''اے ابو ذر! تو ضعیف آدمی ہے اور حکومت ایک امانت ہے جو قیامت کے دن رسوائی اور پشیمانی کا باعث بنے گی۔ مگر جس نے اس کی ذمہ داریوں کو بنایا اور اس کے پورے حقوق ادا کیے۔

4. عن أبي ھریرة عن النبي ﷺ قال: إنکم مستَحْرِصُوْنَ علی الإمارة وستکون ندامة یوم القیمة فنعم المرضعة وبئسَت الفاطمة۔ (بخاری، کتاب الأحکام۔ باب ما یکرہ من الحرص.....)

حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ تم لوگ عنقریب حکومت اور سرداری کی حرص کرو گے اور قیامت کے دن اس کی وجہ سے شرمندگی ہو گی۔ (کیونکہ حکومت ایک انّا کی طرح ہے) دودھ پیتے وقت تو مزہ ہے مگر چھٹتے وقت سخت تکلیف۔

جاہ طلبی، دولت کی حرص دو ایسے جرائم ہیں جو ایک فلاحی مملکت کو بیخ و بُن سے ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ آپ نے ان دونوں باتوں سے ان الفاظ میں منع فرمایا:

5. عن کعب ابن مالك عن أبيه  قال: قال رسول اللّٰه ﷺ: ''ما ذئبانِ جائعان أرْسِلَا في غنم بأفسد لھا عن حرص المرءِ علی المالِ والشرف لدینه(ترمذی)
'حضرت کعب بن مالک اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بکریوں کے ریوڑ میں دو بھوکے بھیڑیے اتنی تباہی نہیں مچا سکتے جتنی انسان کی حرصِ جاہ و مال اس کے دین کے لئے تباہ کن ہو سکتی ہے۔''

آئندہ واقعات سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اس معیار پر بھی پورے اُترتے ہیں۔
نوٹ

یہ کوئی حکم نہیں تھا بلکہ اس کی حیثیت بھی ایسی ہی ہوتی تھی جیسے آپ ﷺ نے یہ خبر دی تھی کہ میرے بعد تیس سال تک خلافت علی منہاج النبوت رہے گی۔