ڈاونلوڈ
آن لائن مطالعہ
190
فہرست مضامین
میرے پسندیدہ۔۔
اس صفحہ کو پسند کرنے کے لیے لاگ ان کریں۔- اپریل
1992
اکثر دانشور اس دنیائے ہست وبود میں رونما ہونےوالے واقعات کو کسی نہ کسی سبب یا شخص سے ملحق کردیتے ہیں۔اور اپنی ہمہ دانی کے غرور میں وہ اس حقیقی مدبر الامور،احکم الحاکمین وحدہ لاشریک کے اختیار و تصور کو اپنے ذہن سے یکسر خارج کردیتے ہیں کہ ہر "سبب" اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔اور ہر شخص کی حیات وموت،عقل و ہوش اسی کے اختیار مطلق میں ہے جس کو خدائے عزوجل نے اپنے کلام میں مختلف انداز سے بیان فرمایا ارشاد ہے۔
﴿وَلِلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۚ وَإِلَى اللَّـهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ﴿١٠٩﴾...آل عمران
"اور جو کچھ آسمانوں میں اور جوزمین میں ہے۔ اللہ ہی کا ہے اور تمام معاملات اللہ ہی کی طرف لوٹتے ہیں۔
﴿وَلِلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۚ وَإِلَى اللَّـهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ﴿١٠٩﴾...آل عمران
"اور جو کچھ آسمانوں میں اور جوزمین میں ہے۔ اللہ ہی کا ہے اور تمام معاملات اللہ ہی کی طرف لوٹتے ہیں۔
- اپریل
1992
جن یا فرشتہ؟؟؟
جہاں یہ فرمایا:۔﴿كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ... ﴿٥٠﴾...الكهف
ترجمہ:۔ "وہ جنات میں سے تھا اپنے رب کی حکم عدولی کا مرتکب ہوا۔"
چنانچہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔ابلیس کا اس حکم عدولی سے پہلے فرشتے میں شمار ہوتا تھا۔"عزازیل" نام تھا۔زمین پر رہتا تھا اور نہ صرف سب سے زیادہ علم رکھتا تھا۔بلکہ سب سے زیادہ عابد بھی تھا۔انہیں خوبیوں کے گھمنڈ میں اس نے تکبر کیا۔مگر یہ بات طے ہے کہ اس کا تعلق جنات سے تھا۔
دوسری روایت یہ ہے کہ اس کا پہلا نام عزازیل تھا۔فرشتوں میں معزز تھا۔چار پر ر کھتا تھا۔ بعد میں ابلیس کہلایا۔تیسری روایت یہ ہے کہ آسمان وزمین کی بادشاہت اورسیاوت کا مالک تھا۔لیکن معصیت کی پاداش میں اللہ نے اسے مسخ کرکے شیطان رجیم قرار دے دیا۔۔۔
جہاں یہ فرمایا:۔﴿كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ... ﴿٥٠﴾...الكهف
ترجمہ:۔ "وہ جنات میں سے تھا اپنے رب کی حکم عدولی کا مرتکب ہوا۔"
چنانچہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔ابلیس کا اس حکم عدولی سے پہلے فرشتے میں شمار ہوتا تھا۔"عزازیل" نام تھا۔زمین پر رہتا تھا اور نہ صرف سب سے زیادہ علم رکھتا تھا۔بلکہ سب سے زیادہ عابد بھی تھا۔انہیں خوبیوں کے گھمنڈ میں اس نے تکبر کیا۔مگر یہ بات طے ہے کہ اس کا تعلق جنات سے تھا۔
دوسری روایت یہ ہے کہ اس کا پہلا نام عزازیل تھا۔فرشتوں میں معزز تھا۔چار پر ر کھتا تھا۔ بعد میں ابلیس کہلایا۔تیسری روایت یہ ہے کہ آسمان وزمین کی بادشاہت اورسیاوت کا مالک تھا۔لیکن معصیت کی پاداش میں اللہ نے اسے مسخ کرکے شیطان رجیم قرار دے دیا۔۔۔
- اپریل
1992
((یہ لیکچر 18 جمادی الاخرہ 1410ہجری بروز جمعرات مسجد بنی ہاشم میں دیا گیا۔))
آغاذ:۔سب سے بہتر کلام اللہ جل شانہ کا کلام ہے۔اور سب سے بہترین راستہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ ہے۔اور دین میں بدعات کا ارتکاب سب سے بُرا کام ہے۔چنانچہ آج میں جس موضوع پر آپ سے گفتگو کرنا چاہتاہوں۔اس کاتعلق بدعات کی ہی قبیل میں سے ایک بدعت کے ساتھ ہے۔جس کے ثبوت میں میری نظر ہے۔چند ایسی تالیفات گزری ہیں۔جن میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔کہ "قرآن حکیم" کی "تبیین" میں "سنت" کو کوئی اہمیت حاصل نہیں۔لہذا میں اللہ کے اس فرمان"(عربی)" کی تعمیل کرتے ہوئے اپنی علمی بساط کےمطابق اس اہم مسئلہ پر روشنی ڈالوں گا۔
آغاذ:۔سب سے بہتر کلام اللہ جل شانہ کا کلام ہے۔اور سب سے بہترین راستہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ ہے۔اور دین میں بدعات کا ارتکاب سب سے بُرا کام ہے۔چنانچہ آج میں جس موضوع پر آپ سے گفتگو کرنا چاہتاہوں۔اس کاتعلق بدعات کی ہی قبیل میں سے ایک بدعت کے ساتھ ہے۔جس کے ثبوت میں میری نظر ہے۔چند ایسی تالیفات گزری ہیں۔جن میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔کہ "قرآن حکیم" کی "تبیین" میں "سنت" کو کوئی اہمیت حاصل نہیں۔لہذا میں اللہ کے اس فرمان"(عربی)" کی تعمیل کرتے ہوئے اپنی علمی بساط کےمطابق اس اہم مسئلہ پر روشنی ڈالوں گا۔
- اپریل
1992
(إتقوا فراسة المؤمن فإنه ينظر بنور الله )
(مومن کی فراست سے ڈرتے رہو،کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نور سے دیکھتا ہے)
قرآن کریم کی آیت ﴿ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِينَ ﴿٧٥﴾...الحجر کی شرح میں بیان کی جانے والی اس حدیث نے علمائے شریعت اور عوارف ہردو طبقات میں بہت شہرت حاصل کی ہے۔آیت مذکورہ میں لفظ"(متوسمین)" کی تفسیر میں امام ترمذی ؒ بعض اہل علم حضرات سے نقل فرماتے ہیں کہ اس سے مراد(متفرسین) ہے۔
(مومن کی فراست سے ڈرتے رہو،کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نور سے دیکھتا ہے)
قرآن کریم کی آیت ﴿ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِينَ ﴿٧٥﴾...الحجر کی شرح میں بیان کی جانے والی اس حدیث نے علمائے شریعت اور عوارف ہردو طبقات میں بہت شہرت حاصل کی ہے۔آیت مذکورہ میں لفظ"(متوسمین)" کی تفسیر میں امام ترمذی ؒ بعض اہل علم حضرات سے نقل فرماتے ہیں کہ اس سے مراد(متفرسین) ہے۔
- اپریل
1992
اگر صبر وقناعت ہے توراحت ہی راحت ہے
تکبر کا مال اکثر لڑائی ہے عداوت ہے
ہزاروں رنج جلوت کا مداوا کنج خلوت ہے
تکبر کا مال اکثر لڑائی ہے عداوت ہے
ہزاروں رنج جلوت کا مداوا کنج خلوت ہے
- اپریل
1992
روایت ہے کہ امام بخاریؒ اس بات کے قائل ہیں کہ جب کسی کا پیر سن ہوجائے تو یا "محمد" صلی اللہ علیہ وسلم کہے تو اس کا پاؤں درست ہوجائے گا۔
الفاظ یہ ہیں:۔
(باب ما يقول الرجل إذا أخدرت رجله)
یعنی باب ہے کہ آدمی پاؤں سن ہوجائے تو کیا کہے؟حضرت عبدالرحمٰن بن سعد بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پاؤں سن ہوگیا۔تو ایک شخص نے ان سے کہا جو آدمی آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہو اس کا نام لیجئے انہوں نے کہا"یا محمد" صلی اللہ علیہ وسلم(اردو ترجمہ ادب المفرد ص281۔اردو ترجمہ نفیس اکیڈمی کراچی)۔۔۔ادب المفرد کے دوسرے نسخے میں حرف ندا"یا" مذکور نہیں ہے۔یعنی صرف "محمد" صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔(الدین الخالص صفحہ 160 جلد نمبر 3)
اول تو بلاشبہ سنداً یہ روایت ضعیف ہے کیوں کہ اس کی سند میں ابواسحاق السبیعی ؒ اورسفیان ثوریؒ مدلس راوی موجود ہیں۔اور محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ مدلس راوی جب"عن" سے روایت کرے گا تو اس کی روایت ضعیف ہوگی۔کیوں کہ مدلس کا عن سے ر وایت کرتا علت قادحہ ہے ،۔تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں جناب زبیر علی زئی صاحب کا مضمون "تین روایات کی تحقیق"(ہفت روزہ الاعتصام لاہور 8 نومبر 1991ء)
الفاظ یہ ہیں:۔
(باب ما يقول الرجل إذا أخدرت رجله)
یعنی باب ہے کہ آدمی پاؤں سن ہوجائے تو کیا کہے؟حضرت عبدالرحمٰن بن سعد بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پاؤں سن ہوگیا۔تو ایک شخص نے ان سے کہا جو آدمی آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہو اس کا نام لیجئے انہوں نے کہا"یا محمد" صلی اللہ علیہ وسلم(اردو ترجمہ ادب المفرد ص281۔اردو ترجمہ نفیس اکیڈمی کراچی)۔۔۔ادب المفرد کے دوسرے نسخے میں حرف ندا"یا" مذکور نہیں ہے۔یعنی صرف "محمد" صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔(الدین الخالص صفحہ 160 جلد نمبر 3)
اول تو بلاشبہ سنداً یہ روایت ضعیف ہے کیوں کہ اس کی سند میں ابواسحاق السبیعی ؒ اورسفیان ثوریؒ مدلس راوی موجود ہیں۔اور محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ مدلس راوی جب"عن" سے روایت کرے گا تو اس کی روایت ضعیف ہوگی۔کیوں کہ مدلس کا عن سے ر وایت کرتا علت قادحہ ہے ،۔تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں جناب زبیر علی زئی صاحب کا مضمون "تین روایات کی تحقیق"(ہفت روزہ الاعتصام لاہور 8 نومبر 1991ء)
- اپریل
1992
محترم جناب غازی عزیر صاحب حفظہ اللہ قارئین "محدث" کے لئے محتاج تعارف نہیں۔ آپ کے مضامین اکثر محدث کے صفحات کی زینت بنتے رہتے ہیں۔محدث(زی الحجہ 1409ہجری) میں"الاستفتاء" کے اوراق پر آپ کامقالہ بعنوان " کیا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بول وبراز پاک تھا؟ شائع ہوا تھا جس میں فاضل مقالہ نگار کوتگ ودود کے باوجود چند احادیث کاطریق نہ مل سکا۔محترم زبیر بن مجدد علی صاحب نے ان احادیث کے طرق کا تتبع کیا ہے اور حوالہ تلاش کرنے میں کامیاب رہے۔قارئین کے علم میں اضافے کی خاطر ان کے"استدراک" کو شائع کیاجارہا ہے۔۔۔ادارہ
- اپریل
1992
قاری عبدالحفیظ صاحب ریسرچ اسسٹنٹ ادارہ"منہاج" کے تعاقب کے جواب میں
سہہ ماہی مجلہ "منہاج" اشاعت اپریل 1987ء میں میرا ایک مضمون بعنوان "خلفائے راشدین کی شرعی تبدیلیاں"شائع ہوا تھا۔اس مضمون میں میں نے پرویز صاحب اور جعفر صاحب پھلواروی کے اس اعتراض کا جواب پیش کیا تھا۔"خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین بالعموم اور حضرت عمر فاروق بالخصوص اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تبدیلیاں کرتے رہے ہیں۔"پھر ان حضرات نے نتیجہ یہ پیش فرمایا تھا کہ:۔
"اگر خلفائے راشدین اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق پچیس تیس سنت ہائے رسول میں تبدیلیاں کرسکتے ہیں تو آخر ہم اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق ایسی تبدیلیاں کیوں نہیں کرسکتے۔"
سہہ ماہی مجلہ "منہاج" اشاعت اپریل 1987ء میں میرا ایک مضمون بعنوان "خلفائے راشدین کی شرعی تبدیلیاں"شائع ہوا تھا۔اس مضمون میں میں نے پرویز صاحب اور جعفر صاحب پھلواروی کے اس اعتراض کا جواب پیش کیا تھا۔"خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین بالعموم اور حضرت عمر فاروق بالخصوص اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تبدیلیاں کرتے رہے ہیں۔"پھر ان حضرات نے نتیجہ یہ پیش فرمایا تھا کہ:۔
"اگر خلفائے راشدین اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق پچیس تیس سنت ہائے رسول میں تبدیلیاں کرسکتے ہیں تو آخر ہم اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق ایسی تبدیلیاں کیوں نہیں کرسکتے۔"
- اپریل
1992
عبادت اک تجارت ہے منافع جس کا جنت ہے
جنون خدمت انسان شعورآدمیت ہے
بدی خوش رنگ ہے بے حد مگر اس میں ہلاکت ہے
- اپریل
1992
ابھی حال ہی میں قرآن وسنت کے دو علمبردار اہل سنت حضرات(جناب رضوان علی ندوی اور جناب شاہ بلیغ الدین) نے قرآن مجید کی نہایت واضح اصطلاح"اہل البیت" کو اپنے مختلف اختلافات کا نشانہ بنایا۔جو نہایت تکلیف دہ اور افسوس ناک ہے۔ان دونوں حضرات نے ان اختلافات پر ہفت روزہ"تکبیر" میں درجنوں صفحات پر خامہ فرسائی فرمائی، یہاں تک کہ "اہل بیت" کے علاوہ دیگر مسائل اور معاملات پر بھی تنازعات کھڑے کردیئے ان کے بارے میں ظن غالب تو خیر ہی کا ہے۔ اور یہ کہ انھوں نے یہ بحث نیک نیتی کے جذبے سے ہی کی۔لیکن غالباً انھوں نے اس مسئلہ کی تاریخی حیثیت سے صرف نظر کرتے ہوئے لاشعوری طور پر وہ کام کیا جو علماء اہل سنت کے شایان شان نہیں اور کتاب وسنت کےمنحرفین یعنی منافقین کو ہی زیب دیتا ہے۔تاکہ اسلام کی اساس (قرآن وسنت) کو مختلف فیہ بنادیا جائے۔
- اپریل
1992
محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا حافظ ثناءاللہ صاحب۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
خیر وعافیت کے بعد درج ذیل سوالوں کے جواب مطلوب ہیں۔
1۔ازواج مطہرات ام المومنین رضوان اللہ عنھما اجمعین میں سے کسی کی کسی امتی کوبطور دینی اصلاح خواب میں زیارت ہوسکتی ہے یا نہیں؟جیسا کہ حافظ عبدالمنان وزیرآبادی کے متعلق واعظین لوگ بیان کرتے ہیں کہ انہیں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی زیارت ہوئی تھی ۔بریلوی حضرات اعتراض کرتے ہیں کہ یہ چیز ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھما اجمعین کے تقدس اور بزرگی کے خلاف ہے۔آپ واضح فرمائیں کہ حافظ صاحب مرحوم کے متعلق یہ واقعہ صحیح ہے یا نہیں؟یا عقلاً ونقلاً اس طرح کا واقعہ پیش آسکتا ہے یا نہیں۔؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
خیر وعافیت کے بعد درج ذیل سوالوں کے جواب مطلوب ہیں۔
1۔ازواج مطہرات ام المومنین رضوان اللہ عنھما اجمعین میں سے کسی کی کسی امتی کوبطور دینی اصلاح خواب میں زیارت ہوسکتی ہے یا نہیں؟جیسا کہ حافظ عبدالمنان وزیرآبادی کے متعلق واعظین لوگ بیان کرتے ہیں کہ انہیں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی زیارت ہوئی تھی ۔بریلوی حضرات اعتراض کرتے ہیں کہ یہ چیز ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھما اجمعین کے تقدس اور بزرگی کے خلاف ہے۔آپ واضح فرمائیں کہ حافظ صاحب مرحوم کے متعلق یہ واقعہ صحیح ہے یا نہیں؟یا عقلاً ونقلاً اس طرح کا واقعہ پیش آسکتا ہے یا نہیں۔؟
- اپریل
1992
محدثین کے گروہ میں امام محمد بن اسماعیل بخاری کو جو خاص مقام حاصل ہے ا س سے کون واقف نہیں ہے؟امام بخاری ؒ وہ شخص ہیں جنھوں نے اپنی ساری زندگی خدمت حدیث میں صرف کردی ہے۔ اور اس میں جس قدر ان کو کامیابی ہوئی اس سے ہر وہ شخص جو تاریخ سے معمولی سی واقفیت رکھتا ہے۔وہ اس کو بخوبی جانتا ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ امام المحدثین اور"امیر المومنین فی الحدیث" کے لقب سے ملقب ہوئے اور ان کی پرکھی ہوئی حدیثوں اور اور جانچے ہوئے راویوں پر کمال وثوق کیا گیا اور ان کی مشہور کتاب الجامع الصحیح بخاری کو "اصح الکتب بعد کتاب اللہ"کاخطاب دیاگیا۔
- اپریل
1992
مولانا عبدالجبار 1897ء/1314ھ ضلع جے پور راجپوتانہ (ہند) میں پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حافظ اللہ بخش سے حاصل کی۔اس کے بعد دہلی کا رخ کیا یہاں آپ نے کئی سال رہ کر عربی اور دینی علوم میں تکمیل کی۔
آپ کے اساتذہ کرام یہ ہیں:۔
مولانا عبدالوہاب دہلوی جھنگوی۔مولانا عبدالوہاب دہلوی،مولانا احمداللہ دہلوی،مولانا حافظ عبدالرحمان پنجابی شاہ پوری،برادر مولانا فقیر اللہ مدراسی ،مولانا عبدالرحمٰن ولایتی، مولانا ابو سعید شرف الدین دھلوی۔مولانا عبداللہ امرتسری روپڑی۔مولانا عبدالقادر لکھنوی۔مولانا عطاء اللہ لکھنوی۔اور مولاناعبدالعلی عبدالرحمان محدث مبارک پوری صاحب"تحفۃ الاحوذی" فی شرح جامع الترمذی (م1353ھ)
1917ء میں آپ درس نظامی کی تکمیل سے فارغ ہوگئے۔
ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حافظ اللہ بخش سے حاصل کی۔اس کے بعد دہلی کا رخ کیا یہاں آپ نے کئی سال رہ کر عربی اور دینی علوم میں تکمیل کی۔
آپ کے اساتذہ کرام یہ ہیں:۔
مولانا عبدالوہاب دہلوی جھنگوی۔مولانا عبدالوہاب دہلوی،مولانا احمداللہ دہلوی،مولانا حافظ عبدالرحمان پنجابی شاہ پوری،برادر مولانا فقیر اللہ مدراسی ،مولانا عبدالرحمٰن ولایتی، مولانا ابو سعید شرف الدین دھلوی۔مولانا عبداللہ امرتسری روپڑی۔مولانا عبدالقادر لکھنوی۔مولانا عطاء اللہ لکھنوی۔اور مولاناعبدالعلی عبدالرحمان محدث مبارک پوری صاحب"تحفۃ الاحوذی" فی شرح جامع الترمذی (م1353ھ)
1917ء میں آپ درس نظامی کی تکمیل سے فارغ ہوگئے۔
- اپریل
1992
نام کتاب۔عالم برزخ
مولف۔عبدالرحمان عاجز
ناشر۔رحمانیہ دارالکتب۔امین پور بازار فیصل آباد
ہر روزاٹھتے جنازوں اور ہنگاموں سے بھر پور بستیوں کے دامن میں قبرستانوں کے سناٹوں کو دیکھ کر انسان شعوری یا لاشعوری طور پر بے ساختہ یہ کہنے پرمجبور ہوتا ہے۔
دل دھڑکنے کو زندگی نہ کہو
موت کااضطراب ہوتاہے
مگر خوگر پیکر محسوس انسان کی عقل ودانش یہیں تک دم توڑ دیتی ہے۔
مولف۔عبدالرحمان عاجز
ناشر۔رحمانیہ دارالکتب۔امین پور بازار فیصل آباد
ہر روزاٹھتے جنازوں اور ہنگاموں سے بھر پور بستیوں کے دامن میں قبرستانوں کے سناٹوں کو دیکھ کر انسان شعوری یا لاشعوری طور پر بے ساختہ یہ کہنے پرمجبور ہوتا ہے۔
دل دھڑکنے کو زندگی نہ کہو
موت کااضطراب ہوتاہے
مگر خوگر پیکر محسوس انسان کی عقل ودانش یہیں تک دم توڑ دیتی ہے۔