- ستمبر
1985
ہر بات میں ہے بے بس مجبور آدمی ۔ حیران ہوں پھر ہے کس لئے مغرور آدمی
دولت کے نشے میں جو ہوا چور آدمی۔ انسانیت سے ہے وہ بہت دور آدمی
پابند یہ نہیں ہے کسی بھی اصول کا۔ رکھتا نہیں ہے کوئی بھی دستور آدمی
- فروری
1987
خدا کے نام گرامی سے کرتا ہوں تمہید
جو سب سے اعلیٰ و ارفع ہے صاحب تمجید
وہی ہے خالق عالم وہی حمید و مجید
وہی ہے خالق عالم وہی حمید و مجید
اسی کا نام ہے بابرکت او رذکر سعید
- نومبر
1987
معاشرے کی خدا جانے کیسے ہو تشکیل
بپا ہے چارون طرف خوب صورِ اسرافیل
ہر ایک دست و گریباں ہے آج آپس میں
- مارچ
- اپریل
1988
مدینہ ریارِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)، اللہ اللہ
یہاں رحمتوں کا نزول اللہ اللہ
پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) تھے علم اور حکمت میں یکتا
- جنوری
1987
مسلم خفتہ جاگ اب زندہ دلی سے کام لے
باہمی کشمکش کو چھوڑ اور خدا کا نام لے
نام کوبھی نہیں کہیں الفت و ربط باہمی
نام کوبھی نہیں کہیں الفت و ربط باہمی
ذاتی عداوتوں میں ہی کٹتی ہے تیری زندگی
- جون
1988
اے خدائے بحر و بر بندہ نواز
خالقِ ارض و سماء و کارساز
آدمی ہے مبتلائے حرص و آز
- مارچ
1985
زندگانی کا اعتبار نہیں اس پہ انساں کا اختیار نہیں
دل لگانے سے فائدہ کیا ہے یہ جہاں جبکہ پائدار نہیں
جال حرص وہوس نے پھیلائے آرزوؤں کا کچھ شمار نہیں
- جون
1986
آسماں ہے زمیں ہے سب کچھ ہے
کائنات حسین ہے، سب کچھ ہے
مال و دولت کی ہے فراوانی
مال و دولت کی ہے فراوانی
اک سکوں ہی نہیں ہے، سب کچھ ہے
- مئی
1985
ہے زباں پہ میری جاری تری حمد کاترانہ
میرا شوق والہانہ میرا عشق غائبانہ
تجھے یاد کرتے کرتے ہے گزر گیا زمانہ
ہے زباں پہ میری جاری تری حمد کا ترانہ
مری مغفرت کا شاید یہ بن سکے بہانہ
ہوں سیاہ کار بیحد میرا دل دھڑک رہا ہے
کہیں رائیگاں نہ جائے میری محنت شبانہ
نہیں کرسکتا تلافی میں گزشتہ لغزشوں کی
- جنوری
1987
ہزاروں غم ہیں جان ناتواں ہے
میرے سینے سے اٹھتا اک دھواں ہے
نہ جادہ ہے نہ میر کارواں ہے
خدا جانے میری منزل کہاں ہے
- جولائی
1987
نہیں میں اکیلا جہان میں میرے ساتھ میرا خدا بھی ہے
یہ خدا کا خاص کرم بھی ہے میرے محسنوں کی دعا ء بھی ہے
تری رحمتوں کا بھی شکریہ میرے مولا میں نے کیا بھی ہے
تری رحمتوں کا بھی شکریہ میرے مولا میں نے کیا بھی ہے
کبھی بھول چوک بھی ہوگئی کبھی دھوکا مجھ کو لگا بھی ہے
- فروری
1985
دل ہے مراقربان محمدﷺ
جان فائے آن محمدﷺ
سبحان اللہ یہ شان محمدﷺ
- جولائی
1986
بشر ہےخالق عالم کی ایک حسین تخلیق
نہیں یقین جسے ہے وہ کافرو زندیق
وہ اپنے بندوں پہ ہے کس قدر کریم و شفیق
وہ اپنے بندوں پہ ہے کس قدر کریم و شفیق
یہ کرتی رہتی ہے قدرت ہی خود بخود تصدیق
- اگست
1987
خدا نے شعوب و قبائل بنائے
کہ انسان اصل اپنی پہچان جائے
ہوئے پیشے تقسیم پھر اللہ اللہ
ہوئے پیشے تقسیم پھر اللہ اللہ
کہ ہر ایک رزق اپنا اپنا کمائے
- مئی
1987
سمائی ہے جی میں ہوائے مدینہ
نہیں شوق کچھ بھی سوائے مدینہ
خوشا بخت یاور بہار آفرینا
خوشا بخت یاور بہار آفرینا
کہ منزل کی جانب رواں ہے سفینہ
- اپریل
1986
ایک ہنگامہ ہے حرب و ضرب اضداد کا
سامنا اسلام کو ہے کفر او رالحاد کا
نام مٹ جائے جہاں سے نالہ و فریاد کا
نام مٹ جائے جہاں سے نالہ و فریاد کا
یانکل جائے جنازہ قہر و استبداد کا