نور قلب وجگر بھی ہوتی ہے
اور نظر فتنہ گر بھی ہوتی ہے۔
بات کو صرف رائیگاں نہ سمجھ
1992
- اکتوبر
کیا آمد بہار ہے غم خوار کچھ نہ پوچھ گلش میں ہیں بہار کے آثار کچھ نہ پوچھ
کس اوج پر ہے طالع بیدارکچھ نہ پوچھ مشرق ہے آج مطلع انوار کچھ نہ پوچھ
احیائے دین نوید بہاراں ہے اِن دنوں دامانہ گلفروش ہے ہر خار کچھ نہ پوچھ
1979
- مارچ
- اپریل
دو روز گلستان دہرمیں گزار کے ہم جارہے ہیں بازئ اعمال ہار کے
ارض و سماء دشت و گلستان مہر و ماہ آثار ہیں یہ قدرت پروردگار کے
گُل مسکرا رہے ہیں عنادل ہیں نغمہ سنج پیچھےلگی ہوئی ہے خزاں بھی بہار کے
1978
- اگست
- ستمبر
ہشیار ہو غافل کہ بجا ہے طبلِ جنگ
نغمے کی صدا تیز ہو لے ہو بلند آہنگ
جھنکار سلاسل کی صدا دیتی ہے ہر دم
1981
- دسمبر
دلِ حزیں پہ گزرتی ہے کیا یہ بات نہ پوچھ تو حالِ زار مرا دیکھ، واقعات نہ پوچھ
نگاہِ غور سے اس حشرِ کائنات کو دیکھ وجودِ باری پہ آیات بیّنات نہ پوچھ
بس ایک جلوے سے بیہوش ہو گئے موسیٰ خدا کے نورِ مبیں کی تجلّیات نہ پوچھ
1973
- مئی
موت کبھی بستر علالت پر او رکبھی اچانک اس طرح آجاتی ہے کہ توبہ کی بھی مہلت نہیں ملتی۔
عاجز کہیں آجائے نہ وہ وقت اچانک
جس وقت کہ توبہ کی بھی مہلت نہیں رہتی
1978
- اگست
- ستمبر
سردارِ دو عالم ﷺ کی تقاریر۔ احادیث افعالِ پیمبر ﷺ کی تصاویر۔ احادیث
یہ رنگِ تقدس ہے نہ یہ بوئے طہارت ہیں غیرتِ صد وادیٔ کشمیر ۔ احادیث
ہیں کانِ نبی کے در شہوارِ معانی! کس طرح نہ ہوں معدنِ توقیر۔ احادیث
1973
- اپریل
چاہو اگر ہدایت احادیثِ پاک سے
پاؤ گے ربّ کی رحمت احادیث ِپاک سے
جو لائے اپنے خالق ومالک سے مصطفی ؐ
2007
- جولائی
پہلو میں درد قلب میں ہے اختلاج آج کرنا ہے اے نگاہِ کرم کر علاج آج
شاید نہ اس کے بعد کوئی ہاتھ اُٹھ سکے رکھ لے کسی کے دستِ دعا کی تو لاج آج
اک حسن منتظر ہے کہ کل کل پہ ہے بضد اک عشق منتظر ہے کہ کہتا ہے آج آج
1972
- اگست
جس قوم میں اللہ کی طاعت نہیں رہتی اللہ کو اس قوم کی چاہت نہیں رہتی
جس قوم میں تنظیمِ جماعت نہیں رہتی اس قوم کو پھر ہیبت و دہشت نہیں رہتی
جس قوم کے افکار میں وحدت نہیں رہتی اس قوم کی پھر عزت و عظمت نہیں رہتی
1973
- اکتوبر
- نومبر
کیوں بندۂ مومن نہیں تقریر میں بے باک کھلتے نہیں کیوں قوم کی تقدیر کے پےچاک
کیوں سوزِ دروں مردِ خدا کا ہے فسردہ! الحاد کے ہاتھوں ہے زمیں دین کی نمناک
توحید کی وہ تیغِ دودم کند ہوئی کیوں یاں کفر بھی عیار ہے اور شرک بھی چالاک
1972
- نومبر
اللہ کا جو تابعِ فرماں نہیں ہوتا انسان حقیقت میں وہ انساں نہیں ہوتا
بے کیف ہے یہ جلوہ گرِ حسن و محبت پروانہ اگر شمع پہ قربان نہیں ہوتا
مومن کسی انساں کو پریشان نہیں کرتا مومن کسی انساں سے پریشاں نہیں ہوتا
1972
- جون
خدا کے نام گرامی سے کرتا ہوں تمہید
جو سب سے اعلیٰ و ارفع ہے صاحب تمجید
وہی ہے خالق عالم وہی حمید و مجید
وہی ہے خالق عالم وہی حمید و مجید
اسی کا نام ہے بابرکت او رذکر سعید
1987
- فروری
دل مومن پرستار صنم خانہ نہیں ہوتا
حرم کا پاسباں کعبے سے بے گانہ نہیں ہوتا
مئے توحید جس کے ساغر دل سے چھلکتی ہو
مئے توحید جس کے ساغر دل سے چھلکتی ہو
کوئی بھی فعل اس انساں کا رندانہ نہیں ہوتا
1986
- مئی
گفتگوئے شہِ ابرار بہت کافی ہے ہو محبّت تو یہ گفتار بہت کافی ہے
یادِ محبوبؐ میں جو گزرے وہ لمحہ ہے بہت اس قدر عالمِ انوار بہت کافی ہے
مدحِ سرکارؐ میں یہ کیف، یہ مستی، یہ سرور میری کیفیتِ سرشار بہت کافی ہے
1976
- مارچ
- اپریل
جس دل میں مدینے کی کوئی چاہ نہیں ہے کچھ اور ہے وہ دِل نہیں واللہ نہیں ہے
اس کوچۂ اطہر کے گداؤں کے علاوہ دنیا میں کوئی اور شنہشاہ نہیں ہے
ہیں دو ہی مقاماتِ سکوں طیبہ و بطحا بعد ان کے جہاں میں کوئی درگاہ نہیں ہے
1976
- مارچ
- اپریل
ہماری فرمائش پر جناب احسان دانش نے 'محدث' کے 'رسولِ مقبول ﷺ نمبر' کے لئے خصوصی نعت عطا کرنے کا وعدہ فرمایا اور وہ وعدہ یوں ایفاء ہوا کہ ایک طویل ترین نعت صرف قلب و ذہن سے گوہرِ تاب دار بن کر وجود میں آئی۔ کاش کاغذ کی کم یابی و گرانی ہمارے آڑے نہ آتی اور ہم اس شاہکار کو مکمل صورت میں قارئینِ محدّث کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے۔
1973
- مئی
- جون
اے خدا بخش دے ہم گنہگار ہیں
تیری رحمت کے ہر دم طلب گار ہیں
اے خدا بخش دے ہم گنہگار ہیں!
1972
- مارچ
اے خدا ہم تھے کیا، آج کیا ہو گئے
تجھ سے کٹ کر اسیرِ بلا ہو گئے
تھا زمانہ کو ہمت کا کوہسار تھے ہے زمانہ کہ مٹی کا انبار ہیں
1972
- مئی
بر خلاف نصِ قرآں، یہ مذاقِ اجتہاد
دیدنی ہے باز گشتِ اعتزال و اِرتداد !
مکر و فن کا کھیل ہے ان کی بساطِ استناد
2010
- مئی
نغمہ زا سازِ ثنا پاتا ہوں وجد میں ارض و سما پاتا ہوں
معنیٔ لفظ و بیاں آتے ہیں ہم نوا روحِ نوا پاتا ہوں
والئی کشورِ جاں آتے ہیں سرِ تسلیم جھکا پاتا ہوں
1973
- مئی
- جون
بنائے دشمنی دنیا میں انداز تحلم ہے ہر اک جھگڑے کا حل اے دوست تفہیم و تفہم ہے
اجل آتے ہی کیا تجھ کو ہوا اےرُستم دنیا بدن بے حس،نظر معدوم،محروم تکلم ہے
ترے حُسن توجہ سے یہ صحن گلشن عالم ترنم ہی ترنم ہے تبسم ہی تبسم ہے
1978
- مارچ
- اپریل
مثال مردہ پہلو میں پڑا ہے ایک مدت سے
دل خوابیدہ، اٹھ بیدار ہوجا خواب غفلت سے
مال زندگی دیکھا ہے جس کی چشم عبرت نے
مال زندگی دیکھا ہے جس کی چشم عبرت نے
وہ کب مانوس ہوتاہے جہاں کے عیش و عشرت سے
1986
- اگست
معاشرے کی خدا جانے کیسے ہو تشکیل
بپا ہے چارون طرف خوب صورِ اسرافیل
ہر ایک دست و گریباں ہے آج آپس میں
1987
- نومبر
ایمان کی جب دل میں حرارت نہیں رہتی حق بات کے اظہار کی جرأت نہیں رہتی
جب پاس کسی کے بھی یہ دولت نہیں رہتی پھر حال پہ کیوں اپنے قناعت نہیں رہتی
جب اپنی خطاؤں پہ ندامت نہیں رہتی پھر کوئی بھی اصلاح کی صورت نہیں رہتی
1972
- جولائی